’قبائیلیوں ‘کو ’ہندو‘ بنانے سنگھ کی کوشش

   

رام پنیانی
راہول گاندھی نے آدی واسیوں کے بارے میں دیئے گئے حالیہ بیان میں کچھ یوں کہا: ’’بی جے پی کے لوگ آپ کو آدی واسی نہیں کہتے، آپ کو وہ کیا کہتے ہیں؟ وان واسی، وہ آپ کو یہ نہیں کہتے کہ آپ ہندوستان کے اول مالکین ہیں، وہ ایسا کہتے ہیں کہ جنگلات میں زندگی گذاریں۔ ملک کے ان حقیقی باالفاظ دیگر اصلی باشندوں کیلئے دستور میں درج فہرست قبائل جیسا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری اور دلچسپ ہوگا کہ دستور ساز اسمبلی کے قبائلی نمائندہ جسپال سنگھ منڈا نے لفظ آدی واسی کیلئے کہا۔ انہوں نے قبائیلیوں کیلئے لفظ بن جاتی (جنگلات میں رہنے والے) کے استعمال پر شدید تنقید کرتے ہوئے شدت سے اس کی مخالفت کی۔ واضح رہے کہ آر ایس ایس اور اس کی حلیف جماعتیں قبائلیوں کیلئے لفظ ونواسی (جنگلات میں رہنے والے) استعمال کرتے ہیں اور بہت پہلے سے ہی یہ لفظ آر ایس ایس کے لوگ استعمال کرتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ ان لوگوں نے آدی واسیوں کو ہندویانے کیلئے 1952ء میں ونواسی کلیان آشرم قائم کیا جو عداوتی کلچر اپنائے ہوئے ہے۔ آر ایس ایس کے رام مادھو کہتے ہیں کہ اگر انہیں آدی واسی کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے باہر سے آئے ہیں۔ رام مادھو اور ان کی تنظیم کے نظریہ کے مطابق ہم (ہندوز) ہندوستان کے اصل باشندہ ہیں۔ ایسا نظریہ گہرے سیاسی اثرات کا حامل ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آریائی باشندوں کی ایمیگریشن (قبضہ) سے متعلق نظریہ کو تلک جیسے لوگوں نے ابتداء میں برقرار رکھا۔ تلک نے اپنی کتاب Arctic Home of Vedas میں لکھا کہ آریائی باشندہ بہت ہی اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ Arctic Zone (قطب شمالی) سے آئے تھے اور اہم بات یہ ہے کہ گولوالکر نے اس معاملے میں تلک کے متضاد بیان دینے یا موقف اختیار کرنے سے گریز کیا اور ہنوز یہی کہا جاتا ہے کہ آریائی باشندہ ہی اس سرزمین کے حقیقی اور اصل باشندے ہیں۔ انہوں نے تلک نے جو کچھ کہا تھا، اس ملک میں کچھ یوں ترمیم کی کہ اس پر ہنسی آتی ہے۔ انہوں نے لکھا Arctic Zone (قطب شمالی) خود بہار، اڈیشہ علاقہ میں کہیں واقع تھا اور زمین کا یہ بڑا حصہ Landmass Migration کے ذریعہ قطب شمالی کو منتقل ہوگیا ہوگا ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب اراضی یا زمین منتقل ہورہی تھی، ممکن ہے لوگ آسمان میں لٹک رہے ہوں گے اور جب زمین کی گردش رُک گئی تب وہ زمین پر بس گئے اور پھر زمین کی گردش یا منتقلی کے نتیجہ میں ہی زمین کا وہ حصہ شمال مشرق کی طرف منتقل ہوا اور کچھ عرصہ بعد زمین کے اس حصے کی مغربی سمت منتقلی عمل میں آئی۔ بعض مرتبہ اس نے شمال کی سمت کوچ کیا اور پھر وہ اپنے موجودہ مقام پر آگئی۔ ایسا ہو تو کیا ہم قطب شمالی کو چھوڑ کر اسے خیرباد کہہ کر ہندوستان آتے اور قطب شمالی ہمیں یہاں چھوڑ کر زگ زیگ انداز میں مارچ کرتے ہوئے شمال کی جانب آگے بڑھ جاتا؟یہ ثابت کرنے کیلئے کہ آریائی باشندہ اسی کے دامن میں پیدا ہوئے۔ اسی کی پیداوار ہیں ۔ اس طرح کی بازیگری اور قلابازی کیوں؟ اصل میں گولوالکر اور ان جیسے لوگوں کی یہ ذہنیت ہے کہ 8 یا 10 ہزار سال سے پہلے ہی سے اس سرزمین پر ہم ہندو ہی آباد تھے اور ہم ہندوؤں کا ہی قبضہ تھا۔ بعد میں بیرونی نسل کے لوگوں نے اس پر قبضہ کیا، اس لئے یہ سرزمین ہندوستان کہلاتی ہے جس کا مطلب ہندوؤں کی سرزمین، ہندوؤں کے رہنے کا مقام ان کے رہنے کی جگہ ہے۔ اسی بناء پر گولوالکر جیسے لوگوں کے خیال میں مسلمان اور عیسائی بیرونی باشندے ہیں، ان لوگوں نے ہندوستان پر حملہ کیا اور اس سرزمین کو اپنے قبِضہ میں لیا۔ دوسری طرف لسانی آرکیالوجیکل (آثارِ قدیمہ کے حوالے سے) اور آبادی کی جینیاتی جائزے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہم تمام جنوبی آفریقہ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ہماری اصل جنوبی آفریقہ کی سرزمین ہے۔ اس سرزمین پر بسے لوگوں کی نقل مکانی کی قبل ازیں لہر کے نتیجہ میں یہ بات 65 ہزار سال قبل کی ہے جبکہ 3,500 سال قبل آریائی باشندے وسطی ایشیا کی گھانس پھونس کے علاقوں سے ہندوستانی سرزمین پر نقل مکانی کی اور جب وہ یہاں آئے، ان لوگوں نے مقامی آدی واسیوں پر اپنا تسلط قائم کیا۔ مختلف نسلوں کی نقل مکانی کا شاندار تجزیہ کرتے ہوئے ٹونی جوزف نے اپنی کتاب Early Indians میں اس بات کو ثابت کیا کہ آریائی باشندوں کا ہندوستان سے نہیں بلکہ وسطی ایشیا سے تعلق ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ ہندوستانی نقل مکانی کرکے یہاں کے اصل باشندے یعنی آدی واسیوں پر حاوی ہوگئے۔ ان پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ اب جبکہ آدی واسی، آریائی باشندوں کے یہاں آنے سے پہلے ہی آباد تھے۔ آر ایس ایس کا مشترکہ نظریہ پوری طرح یہ ہوگیا کہ آریائی باشندے ہی اس ملک کے حقیقی باشندے ہیں اور اس کے ساتھ سنگھ اور اس کے لیڈروں و حامیوں نے ہندو قوم پرستی کو جوڑ دیا اور اس سرزمین پر سب سے پہلے آکر آباد ہونے والوں کے طور پر دعویٰ کیا۔ سنگھیوں کے مطابق چند لوگوں کو حملہ آوروں (مسلمانوں) نے جنگلات میں ڈھکیل دیا۔ آدی واسی علاقوں میں داخل ہونے کی خاطر سنگھ نے وان واسی کلیان آشرم قائم کئے اور آج قبائیلی علاقوں میں یہ آشرم کافی سرگرم ہیں۔ اس کا مقصد واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ آدی واسیوں کو ہندوؤں کے طور پر پیش کرنا اور ان پر ہندوازم (برہمن) کے اصول و قواعد نافذ کرنا تھا۔ اگر ہم قبائیلی علاقوں میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ 1980ء کے دہے سے ان کی سرگرمیاں جارحانہ ہوگئی ہیں اور سوشیل انجینئرنگ کے ذریعہ بھی ان لوگوں نے آدی واسیوں کے کئی گوشوں کے دل جیتے ہیں۔ ان علاقوں میں عیسائی مشنریز پہلے ہی سے تعلیم اور صحت کے شعبوں کے ذریعہ کام کررہی ہیں ۔ کئی بڑے اور اہم قبائیلی علاقوں میں کام کررہے آر ایس ایس اور اس کے ہمدردوں کے کئی مقاصد ہیں جس میں انتخابی مقاصد کیلئے آدی واسیوں کے دل جیتنا ان کی تائید حاصل کرنا ، دوسرے انہیں ہندو بنانا، انہیں یہ بتانا کہ تم ہندو ہو اور تیسرے ان علاقوں میں عیسائی مشنریز کے اثر کا جواب دے کر اس اثر کو گھٹانا ہے۔ مثال کے طور پر دنگس (گجرات)، جھابوا (مدھیہ پردیش) اور کندھامل (اڈیشہ) میں آر ایس ایس پرچارکوں نے بڑے پیمانے پر اپنے مراکز کھولے اور ان علاقوں میں تشدد کے جن واقعات کا مشاہدہ کیا اور وہ تشدد اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ گیا جب 1999ء میں عیسائی پاسٹر گراہم اسٹینس کو انتہائی بیدردی سے موت کے گھات اُتارا گیا اور سال 2008ء میں خوفناک کندھامل تشدد برپا کیا گیا۔ ان علاقوں میں دلیپ سنگھ جودیو جیسے لوگوں کو عروج بھی حاصل ہوا جس نے گھر واپسی پروگرام شروع کیا جس کے تحت آدی واسیوں کو ہندو بنایا۔ ان لوگوں نے ایکال اسکولس بھی شروع کئے جس میں قبائیلی بچوں کو سنگھ کے نظریات کے مطابق تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ لوگ قبائیلوں کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے شابری کمبھ میلوں کا انعقاد عمل میں لاتے رہتے ہیں تاکہ آدی واسیوں کو ہندو بنانے کے عمل میں تیزی پیدا کی جاسکے۔ اس میں ہنومان اور شابری ماتا کو آدی واسیوں کے آئیکن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور شری رام کے انہیں کٹر بھکت ظاہر کرتے ہوئے ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ تم جن کو مانتے ہو وہ رام کے بھکت تھے چنانچہ آر ایس ایس کی حکمت عملی انتخابی سطح پر ان کو بہت فوائد دیتی ہے جس کے نتیجہ میں آج ان علاقوں میں بی جے پی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرنے میں کامیاب رہی۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہنومان اور شابری ماتا کو آدی واسیوں میں فروغ دینے کا عمل اس بات کا ایک اشارہ ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں سنگھ کے جو منصوبے ہیں، اس میں آدی واسیوں کا کیا مقام ہوگا، آر ایس ایس کے منصوبوں کا دراصل یہ ایک خاکہ ہوسکتا ہے۔
یہ علاقے مختلف ملکوں کے غریب ترین علاقوں میں سے ہیں اور جہاں گزشتہ دو دہوں سے مخالف عیسائی تشدد دیکھا گیا، ڈیٹا بتاتا ہے کہ اگرچہ بہت بڑے پیمانے پر تشدد کا واقعہ نہیں دیکھا گیا لیکن ایک سب راڈار مخالف عیسائی تشدد کا اس علاقہ میں سلسلہ جاری ہے۔
اگر دیکھا جائے تو آدی واسی اپنی سماجی حالت میں بہتری چاہتے ہیں۔ راہول گاندھی کا کہنا درست ہے کہ بی جے پی ۔ آر ایس ایس کا مقصد آدی واسیوں کو غلام بنانا ہے۔ راہول گاندھی کہتے ہیں: ’’آپ کو ہمارے جنگلاتی وسائل کے حقوق کس نے فراہم کئے؟ وہ کانگریس ہی تھی جس نے فاریسٹ رائٹ ایکٹ بنایا اور PESA ایکٹ بنایا اور صرف کانگریس ہی آپ (قبائیلیوں) کے حقوق کیلئے لڑسکتی ہے۔ آج بی جے پی اس ملک کے اصل باشندوں کو غلام اور محکوم بنانے کیلئے مصروف ہے جبکہ کانگریس کہتی ہے کہ آدی واسی ہی ملک کے قدرتی وسائل کے حقیقی مالکین ہیں، ہمارے اور ان (آر ایس ایس) کے درمیان اختلافات صرف قبائیلیوں کے نام جیسے کہ ہم انہیں آدی واسی بلاتے ہیں ، پر ہی نہیںبلکہ ہماری ذہنیت اور سوچنے کے انداز میں بھی اختلاف ہے۔ہم آدی واسیوں کو بااختیار بنانے کے خواہاں ہیں جبکہ وہ آدی واسیوں کو ہراساں و پریشان کرنے کے خواہاں ہیں۔ راہول گاندھی کا بیان بہت اہم ہے۔ کانگریس آدی واسیوں کے حقوق اور وقار کی خواہاں ہے۔ وہ معاشرہ میں قبائیلیوں کی سکیورٹی اور ان کا بہتر مقام و مرتبہ چاہتی ہے۔