قدیم سکریٹریٹ میں دو مساجد اور ایک مندر کا انہدام

,

   

موجودہ مقامات پر تعمیر کا کوئی منصوبہ نہیں، حکومت نے علماء اور مفتیان سے کوئی مشاورت نہیں کی
حیدرآباد: تلنگانہ سکریٹریٹ کے نئے کامپلکس کی تعمیر کیلئے جاری انہدامی کارروائی میں دو مساجد اور ایک مندر کو منہدم کردیا گیا۔ سکریٹریٹ کے احاطہ میں مسجد ہاشمی اور مسجد دفاتر معتمدی قائم تھے۔ اس کے علاوہ سکریٹریٹ کے درمیانی حصہ میں ایک مندر موجود تھی۔ حکومت نے کامپلکس کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹ محسوس کرتے ہوئے ان تینوں عبادت گاہوں کو منہدم کردیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ پیر کی آدھی رات کو شروع کی گئی انہدامی کارروائی کے پہلے مرحلہ میں دونوں مساجد اور مندر کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈی بلاک سے متصل مسجد ہاشمی انتہائی قدیم مسجد ہے جس کی منتقلی کیلئے متحدہ آندھراپردیش کی حکومت نے کوشش کی تھی لیکن علمائے اکرام اور عوام کی مخالفت کے بعد مسجد کا حصہ چھوڑ کر ڈی بلاک کی نئی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ کانگریس دور حکومت میں مسجد دفاتر معتمدی کو دو کروڑ روپئے کے قرض سے تعمیر کیا گیا اور ایک عالیشان مسجد سکریٹریٹ میں موجود تھی۔ اس مسجد میں سکریٹریٹ کے علاوہ اطراف کے سرکاری دفاتر سے تعلق رکھنے والے مسلم ملازمین نماز کی ادائیگی کیلئے پہنچتے تھے ۔ جمعہ کے موقع پر سینکڑوں مصلی موجود ہوتے۔ حکومت نے نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کیلئے جو پلان تیار کیا ، اس کے تحت دونوں مساجد اور مندر کو منہدم کر کے کسی اور مقام پر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عبادت گاہوں کے انہدام کے سلسلہ میں حکومت نے مذہبی شخصیتوں اور علماء و مفتیان کرام سے کوئی مشاورت نہیں کی۔ مسلمانوں کو تاریکی میں رکھتے ہوئے حکومت نے دونوں مساجد کو شہید کردیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق مساجد میں موجود قرآن پاک اور پاروں کے نسخوں کے علاوہ جائے نمازوں کو انہدام سے قبل کسی مقام پر منتقل کردیا گیا۔ واضح رہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے نفاذ سے قبل تک دونوں مساجد میں نمازوں بالخصوص نماز جمعہ کی ادائیگی کا سلسلہ جاری تھا لیکن لاک ڈاون کے بعد سے دونوں مساجد کو مقفل کرتے ہوئے کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ عبادت گاہوں کے انہدام سے قبل حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ مسلمانوں کے نمائندوں کو اعتماد میں لیتی اور انہیں حقیقی صورتحال اور نئے کامپلکس کے منصوبہ سے واقف کرایا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ سکریٹریٹ کی دیگر دفاتر میں منتقلی کے موقع پر جب مساجد کی برقراری کا مسئلہ آیا تو اس وقت کے ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے تیقن دیا تھا کہ مساجد اپنے مقامات پر برقرار رہیں گے اورحکومت نئے کامپلکس کے ساتھ مساجد بھی دوبارہ تعمیر کرے گی لیکن حکومت کے منظورہ نقشہ کو دیکھتے ہوئے موجودہ مقامات پر مسجد کی تعمیر کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ مسجد کی منتقلی شرعی مسئلہ ہے اور اس سلسلہ میں حکومت نے علماء اور مفتیان کرام سے مشاورت کی زحمت نہیں کی۔ دیکھنا یہ ہے کہ مساجد کے یکطرفہ انہدام پر حکومت کی تائید کرنے والی جماعتیں اور تنظیمیں کیا موقف اختیار کرتی ہیں ؟ اسی دوران دوسرے دن بھی عمارتوںکی انہدامی کارروائی کا سلسلہ جاری رہا اور اطراف کے ایک کیلو میٹر حدود میں ناکہ بندی جاری رہی۔