قرآن

   

… اور نہ زور سے آپ کے ساتھ بات کیا کرو جس طرح زور سے تم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہو (اس بےادبی سے) کہیں ضائع نہ ہو جائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر تک نہ ہو۔( سورۃ الحجرات۔ ۲) 
یہ جملہ حال ہے۔ اَعْمَالُكُمْ میں ضمیر مخاطب ذوالحال ہے اور تَشْعُرُوْنَ کا مفعول محذوف ہے۔اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے فرمایا ہے کہ انسان جب روضہ مقدسہ پر حاضری دینے کی سعادت سے بہرہ ور ہوتو وہاں بھی آواز اونچی نہ کرے۔ جہاں حدیث پاک کا درس ہو رہا ہو وہاں بھی آواز بلند نہ کرے۔ علمائے ربانیین کی خدمت میں حاضر ہو تو اس وقت بھی چلا چلا کر گفتگو نہ کرے اور اپنے پیرومرشد سے بھی ادب و احترام ملحوظ رکھے۔ بارگاہ رسالت ﷺمیں اگر کوئی اس طرح اونچا بولے گا جس سے خاطر عاطر کو اذیت پہنچے تو یہ منع ہے۔ لیکن ضرورت کے وقت بلند آواز سے بولنا منع نہیں۔ حضرت بلال ؓ حضور اکرم ﷺ کی موجودگی میں بلند آواز سے اذان دیتے تھے۔ جنگ میں بلند آواز سے نعرے لگائے جاتے۔ جنگ حنین میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عباس ؓ کو حکم دیا کہ بلند آواز سے صحابہ کو بلائیں۔ حضرت حسانؓ حضور اکرم ﷺ کی موجودگی میں بلند آواز سے اپنے قصائد سناتے تھے۔ الغرض نیت پر انحصار ہے۔ علامہ اسماعیل حقی کہتے ہیں اسی پر بلند آواز سے مل کر درود شریف یا کوئی نعت پڑھنے کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ (روح البیان)