قرآن

   

اے نبی (مکرم) ہم نے بھیجا ہے آپ کو (سب سچائیوں کا) گواہ بنا کر اور خوشخبری سنانے والا ۔ (سورۃ الاحزاب : ۴۵) 
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم (ﷺ) کو بڑے محبت بھرے انداز سے خطاب فرماتا ہے ، اور اس کے بعد ان جلیل القدر خطابات کا ذکر کرتا ہے جن سے اس نے اپنے محبوب کو سرفراز فرمایا۔ ان کے ذکر سے اگر ایک طرف اپنے پیارے رسول کی عزت افزائی مقصود ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کو بھی حوصلہ دیا جا رہا ہے کہ تم ان طوفانوں سے نہ گھبراؤ۔ ان تندوتیز لہروں سے پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ یہ منہ کھولے ہوئے گرداب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس ملت کا سفینہ ہم نے کسی ایسے ملاح کے سپرد نہیں کیا جو کم ہمت ، دوں حوصلہ، نااہل اور ناتجربہ کار ہو۔ بلکہ اس کشتی کا نا خدا وہ نبی برحق ہے جس کو ہم نے ان صفات جلیلہ سے متصف کیا ہے۔ تم صبرو استقامت سے اس کا دامن اطاعت مضبوطی سے پکڑے رہو۔ یقیناً تمہیں ساحل مراد تک رسائی نصیب ہوگی۔ ساتھ ہی دشمنان اسلام کی ان ناپاک آرزوؤں کو بھی خاک میں ملا دیا جو اپنی سازشوں اور حیلہ سازیوں سے حق کی اس شمع فروزاں کو بجھانا چاہتے تھے۔ارشاد فرمایا، اے میرے نبی! ہم نے تجھے شاہد بنایا ہے۔ شاہد کا معنی گواہ ہے اور گواہ کے لئے ضروری ہے کہ جس واقعہ کی وہ گواہی دے رہا ہے وہ وہاں موجود بھی ہو اور اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھے بھی۔ چنانچہ علامہ راغب اصفہانی نے مفردات میں لکھا ہےشہادت وہ ہوتی ہے کہ انسان وہاں موجود بھی ہو اور وہ اسے دیکھے بھی خواہ آنکھوں کی بینائی سے یا بصیرت کے نور سے۔