قربانی تقویٰ شعاری اور جذبۂ اطاعت کااظہار

   

محمد اسرائیل قاسمی
قربانی شعائر اسلام میں سے ایک اہم شعار ہے، جس پر پوری امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ قربانی اتلاف مال، فعل عبث اور اسراف جان ہے، اگرچہ اس نے زندگی بھر اس عقیدہ کے ساتھ قربانی کی تو اس عقیدۂ فاسدہ کی وجہ سے کفار کی طرح ہمیشہ دوزخ میں رہے گا، کیونکہ ہر مسلمان کو یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اسلام کا ایک عظیم الشان شعار ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ’’اور قربانی کے جانور کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی یادگار بنایا ہے اور اس میں تمہارے لئے بہت سی دنیوی و اخروی بھلائیاں ہیں‘‘۔

اللہ تعالی کی نشانی کے طورپر تمام ادیان سماویہ میں قربانی عادت قرار دی گئی ہے اور اسی طرح دنیا میں ہر قوم میں قربانی کا رواج ہے۔ بعض قومیں اپنے خود تراشیدہ بتوں کے نام پر قربانی کرتی ہیں اور کچھ نصاریٰ ابنیت کے قائل حضرت عیسی علیہ السلام کے نام پر قربانی کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم اس کی تاریخ یوں بیان کرتا ہے کہ ’’ہم نے ہر امت کے واسطے قربانی مقرر کردی ہے، تاکہ وہ ان جانوروں کو اللہ کے نام پر قربان کرے جو اللہ تعالی نے اسے عنایت کی ہے‘‘۔ (سورہ الحج، ۳۳)
اللہ تعالی نے بسلسلہ قربان شرک کا سدباب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ جس طرح جملہ عبادات ذات الٰہی کے خاص ہیں، اسی طرح قربانی بھی پروردگار عالم اور خلاق مطلق کے نام سے ہی ہونی چاہئے اور غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کی قربانی قطعی حرام ہے اور اس کا مرتکب مستحق نار ہے۔

واضح طورپر فرما دیا گیا کہ جب تک انسان اپنی جملہ عبادات کو اللہ تعالی کے ساتھ خاص نہ کرلے، اس وقت تک مؤمن و مسلمان ہونے کا سوال نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ اعتراف و اقرار ضروری ہے کہ ’’بے شک میری نماز، میری قربانی و عبادات، میری زندگی اور موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے‘‘۔ اسی دعویٰ کی تکمیل دلیل کے لئے یہ مطالبہ فرمایا ’’سو نماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور قربانی کر اس کے نام‘‘۔ تفسیر مشہور کے مطابق اس میں ’’صل‘‘ سے مراد صلوۃ عید الاضحی اور نحر سے قربانی ہے۔ (روح المعانی، جلد ۳۵، صفحہ ۲۸۴)
عشق خداوندی کا اصل مقتضی تو یہ تھا کہ ہم تمام انسان اللہ تعالی کے نام پر اپنی جانیں قربان کرڈالتے، کیونکہ سب سے پسندیدہ چیز جان ہے، لیکن اللہ تعالی نے فضل فرماکر یہ حکم دیا کہ جانور ہی قربان کردو تو ہم سمجھیں گے کہ تم نے جان پیش کردی۔ لیکن یہ خیال رہے کہ قربانی کا مقصد اصلی خون بہانا یا گوشت کھانا نہیں ہے، یہی تو وجہ ہے کہ اُمم سابقہ کے لئے یہ گوشت حرام تھا، بلکہ اس کا مقصد دلوں کا امتحان، تقویٰ شعاری اور جذبۂ اطاعت کا اظہار ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ’’تمہاری قربانی کا گوشت اور اس کا خون قطعاً اللہ کے یہاں نہیں پہنچتا ہے‘‘۔ اگر تم نے بطیب خاطر جوش محبت الہی میں اپنے محبوب و قیمتی جانور کو میرے نام پر قربان کردیا تو پھر میرے حبیب کی زبان مبارک سے یہ خوش خبری سن لو کہ ’’تمہاری قربانی کا خون زمین پر گرتا بھی نہیں کہ مقبولیت کے واسطے بارگاہ الہی میں پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالی اس کو قبول فرما لیتا ہے‘‘۔ (ترمذی)
ایک بار صحابہ کرام نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! یہ جو قربانی ہم کرتے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے؟‘‘۔ فرمایا ’’یہ تمہارے جد امجد حضرت خلیل علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت ہے‘‘۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ’’اس کے فوائد کیا ہیں؟‘‘۔ فرمایا کہ ’’ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے‘‘۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا ’’(بھیڑ وغیرہ کی) اس میں کیا ملتا ہے؟‘‘۔ فرمایا کہ ’’ان کے ہر بال کے بدلے نیکی لکھی جاتی ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ شریف)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی یاد تازہ کرنے اور عشق خداوندی کا ثبوت پیش کرنے کی غرض سے خیر القرون میں اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام نہایت خوش دلی اور وسعت قلبی کے ساتھ ہر سال قربانی کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جس مسلمان نے نماز سے قبل قربانی کی، اس نے نفس (گوشت کھانے) کے لئے قربانی کی اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی، اس کی قربانی مکمل ہوئی اور مسلمانوں کے طریقہ کے مطابق ہوئی۔ جن جگہوں پر نماز جمعہ اور عیدین ہوتی ہیں۔ یعنی شہر اور قصبہ و تعلقہ وغیرہ) وہاں نماز سے قبل قربانی درست نہیں ہے۔ اگر کسی نے ایسا کردیا تو اس کو دوبارہ قربانی کرنا واجب ہوگا۔ ہاں اگر کسی عذر کی وجہ سے دسویں کو نماز پڑھنا متعذر ہو گیا تو نماز کا وقت گزر جانے کے بعد قربانی درست ہے اور جہاں جمعہ و عیدین کی نمازیں نہ ہوتی ہوں، وہاں طلوع فجر کے بعد قربانی جائز ہے۔ پھر شہر والوں کے لئے دسویں تاریخ کی نماز فجر اور خطبہ کے بعد سے لے کر ۱۲؍ ذی الحجہ کی شام یعنی غروب آفتاب سے قبل تک ہے اور دیہات والوں کے حق میں دس کی صبح صادق کے بعد سے ۱۲؍ ذی الحجہ کے غروب آفتاب سے پہلے تک۔ شوافع کے نزدیک قربانی کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے، جب کہ سورج ایک نیزہ کے بقدر بلند ہو جائے اور ان کے نزدیک قربانی کا آخری وقت ۱۳؍ کے غروب سے پہلے تک ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انسان کا کوئی بھی عمل قربانی کے ایام میں خون بہانے سے زیادہ خدائے تعالی کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے‘‘ (ترمذی شریف و ابن ماجہ شریف) اور بے شک وہ (قربانی میں ذبح شدہ جانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں قبولیت حاصل کرلیتا ہے، لہذا تم اپنے کو اس کے ذریعہ خوش رکھو اور اس کو بوجھ مت جانو۔ جانور کی قربانی چوں کہ انسانی جان کا بدلہ ہے، اس لئے اس دن خون بہانا بہت ضروری ہے۔ اگر کسی نے قربانی واجب ہونے کے باوجود اس مال کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا اور جان بوجھ کر قربانی نہ کی تو گنہگار ہوگا اور قربانی کا وجوب ساقط نہ ہوگا، کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے۔ (نورالانوار ملا جیون)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دو دنبے اپنے دست مبارک سے ذبح کئے، جو ابلق تھے اور لمبے سینگوں والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کرتے وقت بسم اللہ اور تکبیر کہی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺگردن پر چھری پھیرتے وقت اپنا پیر دنبہ کے کوکھ یا جبڑا پر رکھے ہوئے تھے اور ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ پڑھ رہے تھے۔ (بخاری و مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بہت سی بکریاں دیں کہ وہ انھیں صحابہ کرام کے درمیان قربانی کی خاطر تقسیم کردیں۔ تقسیم کے بعد ایک بکری کا بچہ رہ گیا، جو ایک سال کا تھا تو حضرت عقبہ نے اس کا تذکرہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’تم اس کو اپنی جانب سے ذبح کرلو‘‘۔
(بخاری و مسلم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک گائے اور ایک اونٹ میں سات افراد کی جانب سے قربانی کافی ہے (مسلم و ابوداؤد) اونٹ، گائے، بھینس، بیل وغیرہم میں سات آدمی کی جانب سے قربانی درست ہے، بشرطیکہ سب افراد کی نیت قربت الہی اور حصول ثواب ہو۔ نیز عقیقہ والے بھی قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں۔ باقی بکری، بھیڑ اور دنبہ صرف ایک شخص کی جانب سے درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قربانی میں وہی جانور ذبح کرو، جو کہ مسنہ ہو، یعنی جس اونٹ کا چھٹا سال شروع ہو چکا ہو اور گائے بھینس میں سے جس کا دو سال مکمل ہوکر تیسرا سال شروع ہو چکا ہو اور بکری و بھیڑ میں جس کا ایک سال مکمل ہوکر دوسرا سال شروع ہو چکا ہو۔ مگر یہ کہ تم مسنہ نہ پاؤ تو پھر دنبہ یا بھیڑ میں جذعہ یعنی جو مکمل ایک سال کا نہ ہو، چھ ماہ یا زیادہ کا ہو، لیکن دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی کرلو۔ (ترمذی)
مسئلہ: بھیڑ اور دنبہ اگر ایک سال سے کم کا ہو، لیکن وہ ایسا فربہ اور موٹا تازہ ہو کہ اگر اس کو ایک سال کے جانور دنبہ یا بھیڑ کے ساتھ ملا دیا جائے تو دیکھنے والا اس کو ایک سال کا خیال کرے تو اس کی قربانی جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بہت سی بکریاں دیں کہ وہ انھیں صحابہ کرام کے درمیان قربانی کی خاطر تقسیم کردیں۔ تقسیم کے بعد ایک بکری کا بچہ رہ گیا، جو ایک سال کا تھا تو حضرت عقبہ نے اس کا تذکرہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم اس کو اپنی جانب سے ذبح کرلو‘‘۔ (بخاری و مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کونسے جانور قربانی کے لائق نہیں ہیں؟ تو آپ نے چار انگلیوں کے ذریعہ اشارہ فرمایا کہ چار جانور قربانی کے لائق نہیں ہیں (۱) وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن بہت زیادہ ظاہر ہو، چل نہ سکتا ہو (۲) وہ کانا جانور جس کا کاناپن بہت زیادہ نمایاں ہو، جس کی آنکھ کا خراب ہونا یا آدھی سے زیادہ بینائی کا ختم ہو جانا صاف طورپر معلوم ہو (۳) وہ جانور جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، گھاس نہ کھا سکتا ہو (۴) وہ دبلا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم اس جانور کی قربانی کریں، جس کے سینگ ٹوٹے ہوں اور کان کٹے ہوئے ہوں۔
مسئلہ: جس جانور کا سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گیا ہو کہ اس کا گودا نظر آتا ہو، اس کی قربانی ناجائز ہے۔ (بحر الرائق)
مسئلہ: جس جانور کے کان آدھے سے زیادہ یا جس کی دم کٹی ہوئی ہو، اس کی قربانی جائز نہیں ہے (درمختار) اسی طرح جس جانور کے دانت اکثر یا بالکل نہ ہوں، اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے۔ جو جانور اپنے پیروں سے مذبح تک جانے کی قدرت نہ رکھتا ہو، اس کی قربانی جائز نہیں ہیں۔