قطر کے وزیراعظم کی طالبان سربراہ سے خفیہ ملاقات‘ کا انکشاف

,

   

افغانستان کی تنہائی اورعالمی برادری کیساتھ کشیدگی ختم کرنے کے اقدامات

کابل :قطری وزیر اعظم نے ماہ مئی کے دوران طالبان کے سپریم لیڈر سے عالمی برادری کے ساتھ تناؤ کے حل کیلئے خفیہ مذاکرات کیے، ملاقات کے بارے میں بریفنگ دینے والے ذرائع نے بتایا کہ یہ افغانستان کے حکمرانوں کی جانب سے اپنی تنہائی ختم کرنے کے طریقوں پر بات کرنے کے لیے نئی آمادگی کا اشارہ ہے۔ میڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق 12 مئی کو افغانستان کے شہر قندھار میں قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی اور ہیبت اللہ اخونزادہ کے درمیان ہونے والی ملاقات ممکنہ طور پر طالبان کے سربراہ کی کسی غیر ملکی رہنما کے ساتھ پہلی ملاقات ہے۔ذرائع نے بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے سمیت دونوں ملاقاتیوں کی جانب سے تبادلہ خیال کیے گئے تمام امور پر ہم آہنگی کررہی ہے۔ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ قطری وزیراعظم نے ہیبت اللہ اخوندزادہ کے ساتھ جو دیگر مسائل اٹھائے، ان میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر طالبان کی پابندیوں کو ختم کرنے کی ضرورت بھی شامل تھی۔یہ ملاقات قطر کے لیے ایک سفارتی کامیابی کی نمائندگی کرتی ہے، جس نے خواتین پر طالبان کی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ طالبان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کی جانب سے کابل کے ساتھ گہرے تعلقات کو آگے بڑھایا ہے۔امریکہ نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لڑکیوں کے اسکول جانے اور کام کرنے والی خواتین بشمول اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انسانی گروپوں کے لیے، ان کی نقل و حرکت کی آزادی بحال کرنے اور طالبان کی صفوں سے باہر کے افغانوں کو حکومت میں شامل کرنے کے لیے ان پر سے پابندی ختم کریں۔ذرائع کے تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن نے ایک ایسی پیش رفت کی امید میں جو غیر نتیجہ خیز نچلی سطح کی بات چیت کی ہے اسے بلند کرنے کی حمایت کی ہے جو دنیا کی اپنی نوعیت کی واحد پابندیوں کو ختم کر سکتی ہے اور ان سنگین انسانی اور مالیاتی بحرانوں کو کم کر سکتی ہے جس نے لاکھوں افغانوں کو بھوک اور بے روزگاری میں مبتلا کر دیا ہے۔وائٹ ہاؤس نے مذاکرات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا اور محکمہ خارجہ اور واشنگٹن میں قطر کے سفارت خانے نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔دوسری جانب طالبان نے بھی فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔طالبان کی جانب سے بچیوں کی تعلیم اور خواتین کے کام کرنے پر پابندیوں نے انسانی امداد کو روک دیا ہے اور یہ اہم وجوہات ہیں کہ اگست 2021 میں جب سے طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو اب تک تسلیم نہیں کیا۔جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی جانے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ طالبان کا سلوک انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہو سکتا ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون اور افغان رسم و رواج کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ جو ایک سخت گیر اسلام پسند ہیں، انہوں نے اپنے احکام پر سمجھوتہ کرنے پر بہت کم آمادگی ظاہر کی ہے۔تاہم شیخ محمد عبدالرحمٰن کے ساتھ ان کی ملاقات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ افغانستان کی تنہائی کو ختم کرنے اور امدادی پروگراموں کو فروغ دینے کے مقصد سے راستے تلاش کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ملک بھوک اور غربت میں ڈوب رہا ہے۔