لاٹھیاں تھامے دیکھائے دے رہے دونوں اے بی وی پی کے کارکنان ہیں

,

   

’مخالف ملک سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیاجائے گا‘
نئی دہلی۔ اکھل بھارتیہ ویدیارتھی پریشد کے ایک ذمہ دار نے قومی چیانل پر اس بات کو تسلیم کیاکہ 5جنوری کے روز جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ پر حملے کرنے والوں کے ویڈیوز میں ہاتھوں میں لاٹھیاں تھامے دیکھائی دینے والوں آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی کے کارکنان کی ہے اور دونوں میں سے ایک خاتون حملہ آور جو ویڈیو میں دیکھائی دے رہی ہے اس کی دہلی یونیورسٹی کی کارکن ہے۔

تاہم دہلی اے بی وی پی کی جوائنٹ سکریٹری انیما سونکار نے کہاکہ ”واٹس ایپ گروپ میں بے انتہا خوف پھیلایاجارہا ہے‘ کہاجارہا ہے کہ اگر باہر نکلیں گے تو تمھیں خطرہ ہے‘ صرف گروپوں میں ایسا کیاجارہا ہے۔

وہ لوگوں سے استفسار کررہے ہیں کہ راڈس‘ لاٹھیاں‘ مرچی کا اسپرے اور تیزاب لے کر نکلیں۔میں اے بی وی پی کے کارکنوں کی موجودگی سے انکار نہیں کررہاہوں‘ وکاس پٹیل ہمارے کارکن ہیں‘مگر جو کچھ بھی ہوا وہ بچاؤ میں ہوا ہے“۔

ٹی او ائی نے پٹیل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان تک رسائی نہیں ہوسکی‘ مگر کئی جے این یو کے طلبہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سابق طالب علم اے بی وی پی کے ایک کارکن ہے۔دوسرے فرد کی شناخت شرون کمار کی حیثیت سے ہوئی ہے جو جے این یو میں مغربی ایشائی تعلیمات کے مرکز کا طالب علم ہے۔

تاہم جب ٹی او ائی نے ان کے رجسٹراڈ نمبر پر ربط کیاتو انہوں نے کہاکہ ”غلط نمبر“ اور فون کال منقطع کردیا۔ ٹی او ائی کی جانب سے کئے گئے فون کالس اور پیغامات کا سونکار کوئی جواب نہیں دیا۔اے بی وی پی سنٹرل یونیورسٹی کنونیر للت پانڈے سونکار کے بیان کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہاکہ ”ان کے بیان کا کچھ او رمطلب نکالا جارہا ہے۔

صرف ہم سے کیو ں سوالات پوچھے جارہے ہیں؟ وہ جے این یو ایس یو کی صدر ایشا گھوش تھیں جو اے بی وی پی کارکنوں کی پیٹائی کرنے والے ہجوم کی قیادت کررہی تھیں“۔

حملہ آوروں میں ایک کومل شرما بھی شامل تھیں جو ویڈیوز میں دیکھائی دے رہی ہیں۔ اے بی وی پی کے ایک ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ ”کومل شرما ہماری کارکن ہیں۔

مگر وہ اب بہت ڈری ہوئی ہیں اور ان کے والدین انہیں گھر واپس لے کر چلی گئی ہیں۔ ہم بھی ان سے بات نہیں کر پارہے ہیں“۔

شرماکو سوشیل میڈیا ہینڈل 5جنوری کے بعد سے غیرکارکرد ہے۔ درایں اثناء اکشے لاکرا صدر دہلی این ایس یو ائی نے کہاکہ ”اے بی وی پی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے ممبرس جے این یو میں طلبہ او راساتذہ پر حملے کرنے والے ہجوم میں شامل تھے“