لاکھوں لوگوں کو گھروں میں بند کرکے ان کی”قسمت کا فیصلہ“ نہیں کیاجاسکتا۔یوگیندر یادو

,

   

جب تک دل او ردماغ میں سے کوئی ایک بھی باقی ہے‘تب تک میں اس قدم کی حمایت نہیں کرسکتا۔ بات کشمیر کی ہورہی تھی‘ بات ایک نوجوان ساتھی سے ہورہی تھی۔

بات اس لئے ضروری تھی کہ وہ میرے بیان سے بہت تکلیف میں تھا۔ گالی گلوج کی جگہ بات اس لئے بھی ممکن تھی کہ وہ میری عزت کرتاتھا لیکن کشمیرمیں ارٹیکل370کو ختم کرنے او رجموں او رکشمیر کو مرکز کے زیر نگرانی ریاست بنانے کے فیصلے پر مخالفت سے بہت حیران تھا۔

اس بات چیت کے دوران میں یک تیکھا تبصرہ کرنے پر مجبور ہوگیا کہ”کمال ہے بھائی صاحب ہر معاملے پر مودی جی کو قصور وار ٹہرانا ٹھیک نہیں ہے“۔میں نے اتفاق جتایا ”کشمیری کا مسئلہ مودی جی یا بی جے پی کا بنایاہوا نہیں ہے۔

اگر پہلے ذمہ دار ٹہرانا ہے تو کانگریس کو ٹہرانا ہوگا‘ جس نے اس مسلئے کو الجھا دیا‘ جس نے جموں کشمیر میں بار بار اپنے ہمنوا سرکاریں بنائیں‘ قصو ر وار راجیو گاندھی کو ٹہرانا ہوگا‘ جنھوں نے 1987میں الیکشن کے نام پر کشمیر ی عوام کے ساتھ سیدھا دھوکہ دیا۔ ذمہ دار من موہن سنگھ سرکارجس نے اٹل بہاری واجپائی حکومت میں کی گئی اچھی پہل کا تباہ کردیا!۔

قصور وار فاروق عبداللہ اور مفتی محمد سعید کو ٹہرایا جانا چاہئے جنھوں نے کشمیری عوام کے جذبات سے کھلواڑ کراپنی سیاسی دوکانداری کی“۔

اب وہ ذرامطمئن ہوا”صحیح کہا آپ نے! پھر تو آپ کی حکومت کو اس قدم کی حمایت کرنا چاہئے۔ سارے ملک میں اس اقدام کا خیر مقدم ہونا چاہئے‘ لیکن آپ مخالفت کیوں کررہے ہیں“۔

میرا جواب تھا”اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ملک کی عوام حکومت کے اس فیصلے کے ساتھ کھڑی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس فیصلے سے پہلے سے جن حکومتوں نے حالات پیدا کئے ہیں اس وہ سلجھیں گے مزید الجھیں گے؟‘اگر ہماری تشویش صرف جمہوریت اور ووٹوں کی نہیں بلکہ ملک کے حق میں تو کئی مرتبہ ہمیں عوام کے رائے کے خلاف بھی کھڑا ہونا پڑیگا۔ا

یک سچے دیش بھگت کا دھرم ہے کہ وہ ملک کی عوام کو اس طرح کے فیصلوں کے آگے پیچھے کا پس منظر سمجھائے‘ یہ سچ ہے کہ ایسے فیصلے کا اگلے دس سال تک سو سال تک کا اثر رہے گا؟۔اگر اس کے لئے چا رگالیاں بھی سننے پڑی توسر جھکاکر اس کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے“۔

پھر سوال ہوا کہ ”تو آپ پریشانی کیا پورے لک کی جانب سے مودی کی کو ووٹ دینا ہے؟ کیاان کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے منشور کو حساب سے یہ بڑے فیصلے لے سکں؟ اس میں غیر دستور کیاہے؟“۔میں وکیلوں والی بحث میں زیادہ الجھنا نہیں چاہتاتھا اس لئے میں نے چھوٹا سے جواب دیا کہ”منتخب ہوئی حکومت کو اپنی سمجھ سے فیصلے لینے کا پورا حق حاصل ہے لیکن دستور کے دائرے سے باہر جاکر نہیں۔

ہمارے دستور صرف کہتا ہے کہ 370میں ترمیم کرنے سے پہلے جموں اور کشمیر کے دستور سے بھی سفارش ضروری ہے۔ کسی ریاست کی سرحد یا اس کا درجہ بدلنے سے پہلے وہاں کے دستور میں بھی بحث ضروری ہے۔

یہ دونوں باتیں ہوئی‘ اس لئے حکومت کا یہ قدم دستور کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن یہ فیصلے تو سپریم کورٹ کو کرنا ہے‘ میرا اعتراض صرف قانون اور دستور نہیں ہے“۔میں نے اپنی بات سمجھائی”میری اصلی تشویش یہ ہے کہ حکومت کا یہ اقدام ہمارے ملک کے حالات‘ ہمارح جمہوری ڈھانچہ کے جذبات اور قومی سالمیت کی ہماری سمجھ کے خلاف ہے۔

اگر سردار پٹیل نے370کے فارمولہ بنایاتھا تو اس لئے نہیں کہ ان کے اندر میں کوئی کمزوری تھی۔اگر ایک زمانے میں 370کے خلاف بولنے والے اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بننے کے بعد انسانیت‘ جمہوریت او رکشمیریت کے بات کی تو اس لئے نہیں ان سمجھ کمزور تھی۔ ان تمام قائدین کی یہی سونچ تھی کہ کشمیر کو ہندوستان سے جذباتی انداز میں جوڑنا ہے‘ اس کے لئے لاٹھی گولی کا کام نہیں چلے گا۔ا

نہیں معلوم تھا ہندوستانی عوام او رکشمیری عوام کے درمیان میں ایک گہری کھائی ہے وہ جانتے تھے کہ ارٹیکل370اس کھائی کے دوجانب کھڑے لوگوں کو ملانے میں ایک پل کاکام کرتاہے۔ وہ سبھی جانتے تھے کہ اس کھائی کے درمیان میں بنا یہ پل اگر توڑ دیاجائے تو یہ قوم کے حق میں نہیں ہے“۔