لو جہاد قوانین اور سپریم کورٹ

   

تڑپ تڑپ کے توڑتے ہیں بے شمار دام ابھی
جو ہوسکے تو بجلیوں سے اضطراب چھین لو
لو جہاد قوانین اور سپریم کورٹ
ہندوستانی عدلیہ کی کارکردگی اور رول پر ان دنوں جو تنقیدیں ہورہی ہیں اس سے حصول انصاف کے خواہاں افراد کے حوصلے پست ہورہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کو ایک اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے ۔ اسے جتنا مضبوط اور انصاف پسند مانا جانا تھا اب چند سالوں سے اپنے آپ کو منوانے والے کردار سے دور دیکھا جارہا ہے ۔ مرکز میں جب سے نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت آئی ہے ، ملک کے کئی قانونی ، جمہوری و دستوری ادارے ہندوستان کو حقیقی جمہوری ملک برقرار رکھنے میں پیچھے نظر آرہے ہیں ۔ اس سے عوام احساس کمتری کا بھی شکار ہونے لگے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے حالیہ چند برسوں میں جو فیصلے کئیے ہیں ان پر بحث جاری ہے ۔ سپریم کورٹ سے ایک نیا کیس رجوع کیا گیا ہے وہ بین مذہبی شادیوں کی وجہ سے مذہب کی تبدیلی کو پابند ضابطہ بنانے کے لیے اتراکھنڈ اور اترپردیش کے نئے متنازعہ قوانین کا جائزہ لینے سے متعلق ہے ۔ سپریم کورٹ نے ان قوانین پر فوری حکم التواء جاری کرنے سے انکار کردیا ۔ تبدیلی مذہب کے تعلق سے متنازعہ قوانین بنانے والی حکومتوں کو کھلی چھوٹ دینے سے ہندوستان کا مضبوط معاشرہ بکھرسکتا ہے ۔ اس طرح کے قوانین کو اول تو غیر دستوری قرار دے کر مسترد کردینا چاہئے لیکن عدالت عظمیٰ نے قوانین کے خلاف داخل کردہ درخواستوں پر فوری ایکشن لینے کے بجائے حکومتوں کو نوٹس جاری کر کے فیصلہ کے مکمل اختیارات کو سیاسی چاپلوسی کی کھونٹی سے لٹکا دیا گیا ۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کی جانب سے نافذ کردہ نئے بین مذاہب شادیوں کے قوانین کو اگر دستوری طور پر چیلنج کیا گیا ہے تو عدلیہ کو اس پر سنجیدگی سے قدم اٹھاتے ہوئے فوری حکم التواء جاری کرنے کی ضرورت تھی ۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان متنازعہ قوانین کا دستوری جائزہ لینے کا تو فیصلہ کیا ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ سپریم کورٹ کی نظر میں کئی ریاستوں میں بھی اسی طرح کے قوانین پر عمل جاری ہے ۔ اسی لیے سپریم کورٹ نے ان قوانین کے خلاف داخل کردہ درخواستوں کی سماعت کو ترجیح دی ہے تاکہ ریاستی ہائی کورٹس کو بھی ایسے کیسوں کی سماعت میں مدد مل سکے ۔ ویسے کسی بھی ریاست اور علاقہ کے یکساں دکھائی دینے والے قوانین کے لیے بھی وہی عدالتیں دائرہ کار ہونا چاہئے اور دستوری اصول اختیار کیا جانا چاہئے لیکن بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کی من مانی پر لگام لگانے سے عدلیہ بھی بے بسی کا مظاہرہ کرے تو پھر آگے کے حالات کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جانا چاہئے ۔ یہ لو جہاد کا ہّوا کھڑا کرنے والی بی جے پی حکومتیں ان قوانین کے ذریعہ اپنے مقاصد کے مطابق سماج کو پھوٹ کا شکار بنانا چاہتی ہیں اور ان کی سازشوں کو کامیاب بنانے میں ہمارے ملک کے اہم ادارے بھی ساتھ دے رہے ہیں ۔ یہ بدبختی کی بات ہے کہ گذشتہ 6 سال سے ملک کے ہر دستوری و جمہوری ادارے کا تقدس پامال ہورہا ہے ۔ سپریم کورٹ بھی تاخیر سے کام لینے کے حربے پر عمل پیرا دکھائی دے رہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سپریم کورٹ سے جب کوئی سماجی حساس مسئلہ یا مذہبی تنازعہ رجوع کیا جاتا ہے تو وہ اس پر دستوری روشنی میں فوری حکم التواء جاری کرے لیکن بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے ہراسانی والے قوانین کو جائز قرار دینے کے لیے مہلت و سہولت سے کام لیا جانا افسوسناک ہے ۔ یہ قوانین ایک عام ہندوستانی شہری سے اس کی حسن آزادی کو سلب کرلیتے ہیں ۔ بین مذاہب کی شادی کرنے والے جوڑے پولیس ، قانون ، سماج کی ہراسانی کا شکار بنادیئے جاتے ہیں ۔ لو جہاد کے خلاف لائے گئے قوانین کی کئی این جی اوز تنظیموں اور مذہبی اداروں نے مخالفت کی ہے ۔ سپریم کورٹ میں داخل کردہ درخواستوں میں بھی یہی بات شدت سے کہی گئی ہے کہ ہندوستانی معاشرہ کو ضرب پہونچانے والے قوانین پر فوری حکم التواء جاری کیا جانا چاہئے ۔ اعلیٰ عدلیہ سے جو امیدیں وابستہ ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے دستوری اصولوں کو پامال کرنے والی کارروائیوں اور قوانین پر فوری روک لگایا جانا چاہئے ۔ سپریم کورٹ یا تحت کی عدالتوں نے بی جے پی حکومتوں کی من مانی والی حرکتوں کو نظر انداز کردیا تو پھر ان نئے قوانین سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ سے تشویشناک صورتحال پیدا ہوگی ۔۔