لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِىَ دِيْنِ

   

مذکورہ بالا آیت سورہ کافروں کی آخری آیت ہے ۔ سورہ ٔکافرن مکی ہے اور اُس میں چھ آیات ہیں ۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺطواف کی دو رکعتوں اور فجر اور مغرب کی سنتوں میں سورہ ٔکافرن پڑھا کرتے تھے ۔ اسی طرح آپ ﷺنے صحابہ ؓکو فرمایا کہ اس سورت کو پڑھ کر سوؤ گے تو شرک سے بری قرار پاؤ گے ۔ (مسند احمد، ترمذی شریف ) بعض روایات میں خود آپ ﷺ کا عمل بھی یہ بتلایا گیا ہے ۔ (ابن کثیر)​سورہ ٔکافرون میں بطور خاص اُن کافروں سے خطاب ہے جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ کفر و شرک پر ہوگا۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے بعد کئی مشرک مسلمان ہوئے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی۔
امام شوکانیؒ نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ تکرار، عربی زبان کا عام اسلوب ہے، جسے قرآن مجید میں کئی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ جیسے سورہ رحمٰن اور سورۂ مرسلات میں ہے۔ اسی طرح یہاں پر بھی تاکید کے لیے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ دراصل کفار نے یہ تجویز رسول اللہ ﷺ کو پیش کی تھی کہ ایک سال آپ ﷺہمارے معبودوں کی عبادت کریں(نعوذباللہ) اور ایک سال ہم آپ ﷺکے معبود کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کبھی بھی ممکن نہیں کہ میں شرک کا راستہ اختیار کروں ، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ اور اگر اللہ نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لکھی ہے، تو تم بھی اس ہدایت اور توحید سے محروم رہو گے۔یعنی اگر تم اپنے دین پر راضی ہو اور اسے چھوڑنے تیار نہیں ہو، تو میں اپنے دین پر راضی ہوں ۔ ( لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ۔ سورۃ القصص) 
لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِىَ دِيْنِ
’’تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے‘‘
مشرقِ وسطیٰ کا عروس البلاد دوبئی حکومت کی یہی پالیسی ہے ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق دوبئی میں دُنیا کے ۲۰۰ممالک کے لوگ امن و امان بھائی چارگی سے اپنے اپنے کاموں میں خوش خوش مگن رہتے ہیں جو ساری دنیا کے لئے ایک ماڈل ملک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ہمارا ملک بھی بین مذاہب امن و امان بھائی چارگی کا گہوارہ تھا اور ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہلایا جاتا تھا ۔ افسوس کہ چند نفرت کے سوداگروں نے ہمارے ملک کا یہ حال بنا رکھا ہے ؎
گرتے خیمے جلتی طنابیں آگ کا دریا خون کی نہر
ایسے منظم منصوبوں کو دوں کیسے آفات کے نام
اور یہ کہ
نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کو پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
دوبئی پہلی مرتبہ سنہ ۱۹۹۲؁ میں ایک طبی کانفرنس کے لئے گیا تھا جب دوبئی میں ترقی کا شروع کا دور تھا ایک ہی فائیو اسٹار ہوٹل Hyat Regency بر دوبئی میں تھی جہاں کانفرنس منعقد ہوئی تھی ۔ دوسری مرتبہ ۲۰۰۴؁ ء میں گلاسگو ( اسکاٹ لینڈ )کی ایک طبی کانفرنس میں اپنا مقالہ پیش کرنے کے بعد واپسی میں تین چار دن قیام کیا تھا ۔ دوبئی بالکلیہ طورپر بدل چکا تھا ۔ فلک بوس عمارتوں اور شاہراہوں اور فلائی اوور برج سے دوبئی چمک دمک رہا تھا ۔
۲۰۱۶؁ء میں میری بیٹی اور داماد کی دعوت پر میں اور میری اہلیہ دوبئی پہنچے ۔ چونکہ قیام طویل تھا دوبئی اور وہاں کے لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ۔ امارتی لوگ بڑے خوش اخلاق ہیں بیرون ممالک سے آئے برسرروزگار اور سیاحوں کو کبھی بھی نسلی امتیاز کا سامنا نہیں ۔ جو رسول اﷲ ﷺ کے خطبۂ حجۃ الوداع کا ایک حصہ ہے ۔ کیا عوام اور کیا خارجی ، ہر کوئی خوش ہے اور اپنے کاموں میں مگن ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت دوبئی دونوں کی فلاح و بہبود کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ یعنی ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ جبکہ یہ نعرہ ہمارے ملک میں محض زبانی جمع خرچ کا نعرہ ہے جو عمل سے بہت دور ہے ۔ بقول کسی شاعر کے ؎
موجوں سے نہ طُوفانوں سے الله بچائے
کشتی کے نِگہبانوں سے الله بچائے
وہ ناصَحِ مُشفِق ہوں، کہ ہوں واعظِ مُخلِص
بہکے ہُوئے اِنسانوں سے الله بچائے