مؤمن اللہ کے حدود کی حفاظت کرتا ہے

   

صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ’’دعوتِ الی اللہ‘‘ کا فریضہ انجام دیا اور دونوں جہانوں میں سرخرو ہوئے اور آج ہم اس کام سے منہ موڑکر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کے صوفیۂ کرام بھی یہی فرض انجام دیتے رہے اور اسی مشن کی وجہ سے بزرگی و تقدس کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہوئے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا چراغ انبیاء کرام نے اپنے خون پسینہ سے روشن کیا ہے، ہماری نااہلی سے یہ چراغ بجھ نہ جائے گا، اگر ہم یہ کام نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ذلیل و خوار کرکے اپنے دیگر بندوں کو لے آئے گا، جو یہ کام کرکے اسلام کا پرچم بلند کریں گے اور دنیا کو توحید کا پیغام سنائیں گے۔ اگر آپ کو اور ہم کو خدا و رسول اور اولیاء اللہ سے محبت ہے، بزرگانِ دین سے پیار ہے تو ہمیں بہرحال یہ کام کرنا ہوگا، اسی سے ہم اپنی جان اور اپنے مال کی قیمت حاصل کرسکتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کردی ہے، یعنی جنت۔ اس کام میں اپنی توانائیاں، اپنی جان اور اپنا مال کھپائے بغیر ہم ہرگز اللہ کے وفادار بندے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار امتی نہیں بن سکتے۔ خانقاہیں پاؤں توڑکر بیٹھنے کے لئے نہیں ہوتیں، یہ تربیت گاہیں ہوتی ہیں، جہاں سے تربیت حاصل کرکے ذکر الہٰی سے تازہ دم ہوکر دنیا کو پیغامِ توحید سنانے کے لئے نکلنا ہوتا ہے۔
مؤمن کی ساتویں صفت ’’اللہ کے حدود کی حفاظت کرنا ہے‘‘۔ یہ اس کے فرائض کا خیال رکھنے والے، اس کے احکام کی پاسداری کرنے والے، حلال و حرام میں تمیز کرنے والے اور قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی مرضیات و نامرضیات کا خیال رکھنے والے ہوتے ہیں۔ یہ صفات اس ’’بیع‘‘ کا لازمی تقاضا ہیں۔ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر یہ صفات ہمارے اندر نہ ہوں تو ہمارا ایمان مشتبہ اور ہماری بیع مشکوک ہو جاتی ہے، لہذا ان صفات کا اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے۔
اس بیع کی چند خصوصیات ہیں، جن کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سودا کاری کوئی نئی چیز نہیں، جو صرف امت محمدیہ سے کی جا رہی ہو۔ پچھلی امتوں سے بھی یہ سودا کیا گیا تھا اور ان سے بھی یہی وعدہ کیا گیا تھا، توراۃ اور انجیل اس کے گواہ ہیں اور اب قرآن پاک بھی اس کا شاہد ہے۔ گویا یہ بیع ایمان کا لازمہ ہے، جہاں ایمان ہوگا، وہاں یہ بیع ضرور ہوگی۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس سودے کا خریدار اپنے عہد اور وعدہ کا پورا کرنے والا ہے، وہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اس وعدہ اور اس ضمانت میں ہمارا ہی امتحان ہے کہ اس پر یقین کرتے ہیں یا نہیں؟۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یقین عطا فرمائے۔ آمین۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ مؤمنین کو اس سودے پر خوشی منانے کا حکم دیا جا رہا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ سودا ہے ہی ایسا کہ اس پر جتنی بھی خوشی منائی جائے کم ہے۔ اس بیع کی شانِ رفعت تو دیکھئے کہ بائع (فروخت کرنے والا) بندۂ مؤمن ہے، مشتری (خریدار) رب العزت ہے، قیمت اس کی جنت ہے، دستاویز اس کی آسمانی کتابیں ہیں یعنی توریت، انجیل اور قرآن کریم اور واسطہ اس بیع کے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ایسا شاندار سودا اس کے علاوہ کبھی کہیں ہوا ہے؟ اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ ’’اس سودے پر خوشی مناؤ‘‘ اور دِلوں میں چراغاں کرو کہ فانی جان ومال باقی کے عوض بک رہے ہیں، عارضی چیزیں دائمی اور ابدی جنت کے بدلے بک رہی ہیں۔ پھر اس پر بھی غور کیجئے کہ خریدار کون ہے؟ واسطہ کون ہیں؟ کس کے توسط سے یہ سودا ہو رہا ہے؟ اور اس بیع کی دستاویز کتنی شاندار ہے۔
اب ذرا ایمان کے چور ’’جھوٹ‘‘ کو بھی سمجھ لیں۔ جھوٹ دو قسم کا ہوتا ہے، ایک فکری اور دوسرا لسانی۔ فکر و نظر کا جھوٹ یہ ہے کہ جان و مال اللہ تعالیٰ کے ہاتھ فروخت کردینے کے بعد بھی انھیں اپنا سمجھنا اور ان میں مالکانہ تصرف کرنا اور لسانی جھوٹ یہ ہے کہ کسی امر واقعی یا حقیقت نفس الامری کے خلاف کوئی بات کہنا، یہ جھوٹ بھی ایمان کا چور ہے، کیونکہ اس سے مراقبۂ حضوری کی نفی ہوتی ہے۔ کوئی شخص خدا کو حاضر و ناظر سمجھتے ہوئے اس کے سامنے کیسے جھوٹ بول سکتا ہے۔ یہ جھوٹ آدمی اسی وقت بول سکتا ہے، جب کہ وہ خدا کو حاضر و ناظر نہ سمجھ رہا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ’’مؤمن میں اور عیوب ہوسکتے ہیں، لیکن مؤمن جھوٹا نہیں ہوسکتا‘‘ کیونکہ ایمان اور جھوٹ دو متضاد چیزیں ہیں۔ اس لسانی جھوٹ سے بچنا بھی تمام مجاہدات میں سب سے بڑا مجاہدہ ہے۔ اس سے بچنے کی وجہ سے جو چیز حاصل ہوتی ہے، وہ بھی اتنی ہی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے اور وہ ہے ’’تاثیر فی اللسان‘‘۔ پھر جو بات بھی زبان سے نکلتی ہے، وہ ہوکر رہتی ہے۔ بزرگانِ دین اور سلف صالحین اپنے تجربہ کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ ’’سچے شخص کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے، وہ ہو جاتا ہے، خواہ دعا نکلے یا بددعا، فوراً قبول ہو جاتی ہے۔
اس لسانی جھوٹ کے بارے میں ایک بات اور سمجھ لیجئے!۔ یہ شریعت میں سخت ممنوع ہونے کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مواقع پر اس کی اجازت دی ہے، یعنی تین موقعوں پر اسے جائز قرار دیا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ دو افراد یا دو گروہوں میں صلح کرانے یا فتنہ و فساد کو مٹانے کے لئے جھوٹ بولا جائے تو جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جنگ کے موقع پر بھی جھوٹ جائز ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنگ دھوکہ ہے‘‘ یعنی اگر آپ دشمن کے سامنے اپنی سچی اور واقعی پلاننگ رکھ دیں تو پھر آپ کا کام تمام ہو جائے گا اور دشمن آپ کو لقمۂ تر بنالے گا۔ جنگ کے موقع پر جو چالیں چلی جاتی ہیں، ہر چال ایسی ہوتی ہے کہ دشمن کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے، لہذا اس موقع پر یہ جائز ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ میاں بیوی کی خوش مزاجی اور مزاح میں جھوٹ جائز ہے۔ میاں بیوی کے بے تکلف تعلقات اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ اس سے جھوٹ کے مواقع نکل آتے ہیں۔ یہ جھوٹ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے نہیں ہوتا، اس کا مقصد صرف خوش مزاجی اور مزاح ہوتا ہے، کیونکہ میاں بیوی، میاں بیوی ہوتے ہیں، زاہدانِ خشک نہیں ہوتے۔ ان تین مواقع کے علاوہ کسی اور موقع پر جھوٹ جائز نہیں۔ (اقتباس)