ماں تو ماں ہوتی ہے ، وہ پہچان لیتی ہے کہآنکھیں سونے سے لال ہیں یارونے سے

   

سید جلیل ازہر
میں تو پوری دیانت داری سے اس بات کا تحریری اقرار کرتا ہوں کہ دنیا کے سب سے عظیم و مقدس رشتے کا اظہار اپنے مضامین میں بار بار کرتا ہوں تو اس لئے کہ ان مضامین کے مطالعہ کے بعد کوئی بیٹا اپنی ماں کا خیال کرنے لگے یا ماں کے تقدس کا احترام اس کے دل میں جاگ اُٹھے تو شاید اس کے اجر میں میرے کچھ گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوجائے، اس لئے کہ
دعا کو ہاتھ اُٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں ماں سب کی جگہ لے سکتی ہے لیکن ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا کیونکہ یہ وہ عظیم ہستی ہے جو اولاد کے سانس لینے کے طریقہ کار سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ رفتار کی وجہ دکھ ہے یا خوشی۔ ائے انسان! تو اپنے گھروں میں مرغی کے بچوں کا مشاہدہ کرلے۔ گرج چمک کے ساتھ ہی دانہ چگتے ہوئے چوزے دوڑ کر اپنی ماں کے پاس آجاتے ہیں تو خود مرغی گرج چمک کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے بھی اپنے چوزوں کو بچانے انہیں اپنے نازک پروں میں چھپالیتی ہے۔ رشتوں کا احترام تو باقی رہا ہی نہیں بلکہ جب زندگی ناچ نچاتی ہے تو رشتہ دار ڈی جے بن جاتے ہیں۔ یاد رکھو! تم عظمت کی بلندیوں کو چھونا چاہتے ہو تو اپنے دل میں والدین کیلئے عزت و احترام پیدا کرو۔ والدین پربھی اتنا یقین رکھیں، جتنا دواؤں پر رکھتے ہیں۔ تھوڑے کڑوے ضرور ہوں گے لیکن ہمارے فائدہ کیلئے ہوں گے۔ اگر زندگی میں سکون چاہتے ہو تو اپنے ماں باپ کی خدمت کرو ، ان پر خرچ کرو، ان کی خواہشات پوری کرو۔ قدرت کا قانون ہے جس کنویں سے لوگ پانی پیتے ہیں، وہ کبھی نہیں سوکھتا پانی پینا چھوڑ دیں تو کنواں سوکھ جاتا ہے اور افسوس کے زمین پر بعض معاشرے ایسے بھی ہیں جہاں نسل نو کی بڑی تعداد والدین کو ذہنی اذیت اور تکلیف دیتی ہے۔یاد رکھو ! ماں باپ کی دعا وقت تو کیا نصیب بدل دیتی ہے۔ والدین کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ زندگی کا پہلا غسل بھی کسی نے دیا اور آخری غسل بھی کوئی دے گا۔ انسان کی حماقت کا یہ عالم ہے کہ وہ طاقت ملتے ہی اپنا پہلا اور آخری غسل بھول جاتا ہے۔ یاد رکھو! زندگی ایسا پودا ہے جس کا بیج زمین کے اوپر اور پھل زمین کے نیچے ملتا ہے۔ اب وہ زمانہ لوٹ کر نہیں آئے گا جب ہم چھوٹے تھے، لڑتے ہوئے کہتے تھے ’’ماں میری ہے، ماں میری ہے‘‘، اب بڑے ہونے کے بعد اس بات پر لڑتے ہیں کہ ’’ماں تیری ہے ، ماں تیری ہے۔‘‘ اُن ماؤں پر کیا گذرتی ہوگی جنہیں انتہائی بے رحمی کے ساتھ اولاد بیت المعمرین (Old Age Home) منتقل کرکے لوٹ آتی ہے۔ بدنصیب اولاد کو یہ ماننا ہوگا کہ ماں اولاد کی رفیق ہے تو باپ اولاد کیلئے شفیق ہے پھر بھی آج سماج میں لرزہ دینے والے واقعات سامنے آرہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ
کچے پھل پیڑوں سے رشتہ توڑ جاتے ہیں
اور اپاہج باپ ہوجائے تو بیٹے چھوڑ جاتے ہیں
یاد رکھو! جہاں سے سوچ کی تنہائی شروع ہوتی ہے، وہاں سے درد کی گہرائی شروع ہوتی ہے ۔ جہاں سے زندگی کی کہانی ختم ہوتی ہے، وہاں سے روح کے راستہ کا تعین ہوتا ہے۔ بولنے والے جب خاموش ہوجاتے ہیں تو ان کی خاموشی ایک شور بن جاتی ہے۔ لہریں بے جان ہوکر رک جائیں تو سمندر کے نیچے طوفان سر اُٹھا لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ نفرت کا بیج لگائیں اور محبت کی فصل کاشت کریں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے ماں باپ سے بدسلوکی کرو اور آپ کی اولادآپ کے سر پر عزت کا تاج سجا دے ۔ یاد رکھنا! آپ کے ہاتھوں سے ٹوٹا ہوا دل ایک دن آپ کی بربادی کا دروازہ بن جاتا ہے کیونکہ ماں ، بیٹے کی محبت کے بغیر ایسے مرجھا جاتی ہے جیسے پھول دھوپ نہ ملنے سے اپنی تازگی کھودیتا ہے۔ آج کل حالات عجیب و غریب ہوگئے ہیں، کچھ لوگوں کی امیری سمجھ میں نہیں آتی، کتا بلی تو خود پالتے ہیں اور بچے ، خادمہ کی تربیت اور دیکھ بھال میں پروان چڑھتے ہیں۔ آج کل ہم اس دور جہالت میں جی رہے ہیں۔ماں کے بارے میں کیا لکھیں ایک ماں کو شدید بخار اور تکلیف میں ڈاکٹر سے کہتے سنا گیا کہ ڈاکٹر صاحب ! ایسی دوا نہ دیجئے گا جس میں نیند ہو کیونکہ میرا بچہ بہت چھوٹا ہے۔ ماں نہیں ہوتی جس کے پاس ان سے پوچھو دکھ کسے کہتے ہیں۔ میں آخر میں علمائے کرام، حفاظ و مساجد کے ائمہ سے التجا کرتا ہوں کہ وہ ہر ماہ کا ایک جمعہ ’’ماں‘‘ کے عنوان پر اور ایک جمعہ ’’جہیز کی لعنت‘‘ پر خطاب کریں کیونکہ دونوں عنوانات کا تعلق نئی نسل سے ہے۔
فون : 9849172877