ماں کی دعا ہر درد کی دوا

   

سید جلیل ازہر
سچائی کا پیکر لازوال محبت، شفقت، تڑپ ، قربانی، مہربانی جب یہ تمام لفظ یکجا ہوجائیں تو بن جاتا ہے ۔تین حرفوں کا لفظ ’’ ماں ‘‘ جس طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کرنا ممکن نہیں اسی طرح ماں کی ممتا کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن افسوس کہ آج اس عظیم ہستی کے ساتھ اولاد کا رویہ اور ضعیف ماؤں کو گھر سے نکال دینے کے واقعات میں روز بروز اضافہ کو دیکھ کر واقعات کو قلمبند کرتے ہوئے ہاتھ کانپ جاتے ہیں وجود تھرتھرانے لگتا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ عمر کوئی بھی ہو چوٹ لگنے پر پہلا لفظ زباں سے ’ ماں ‘ ہی نکلتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ دولت اس کے پاس ہے جس کی ماں زندہے کیونکہ ہر آدمی انسانیت کی حقیقی تصویر اپنی ماں کے چہرے پر دیکھ سکتا ہے۔ اچھی تربیت ماں سے ملتی ہے اسکول تو صرف تعلیم دیتے ہیں۔ ماں جب ہنس کر دیکھتی ہے تو جنت کی ساری کلیاں کِھل اُٹھتی ہیں اور بیٹے کی زندگی ماں کے اس ہنسنے سے عبارت ہوتی ہے ۔ بیٹے کے لئے ماں کے جو جذبات ہیں ماں کی جو کہانیاں ہیں ، ماں کے ہنسنے میں جو درد کی امڈی ہوئی ایک کائنات ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔ ساری زندگی ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر بندہ ماں کی خدمت کرتا رہے تب بھی ماں کا حق ادا نہیں ہوسکتا ۔ یاد رکھو ماں کے پیار کا کوئی کنارہ نہیں ، سمندر کے پاتال تک کوئی شائد پہنچ گیا ہے لیکن ماں کے پیار کا کنارہ کسی کو آج تک نہیں ملا۔

بڑا دُکھ ہوتا ہے کہ شہروں، تعلقہ جات، دیہی علاقوں میں اپنے ضعیف ماں باپ کے ساتھ نسل نو کی بدتمیزی کے واقعات شرمناک حد تک پہنچ گئے ہیں۔ دنیا والو! ماؤں کی قدر کو ضائع نہ کرنا ، علماء و مشائخ اپنے بیانات میں بار بار نسل نو کو تاکید کررہے ہیں کہ ماں کے پیار کو اور اس کی محبت کا صلہ تو دے نہیں سکتے لیکن ساری زندگی ماں کی خدمت کرنا ، اپنے باپ کی زندگی کے اندر بھی نافرمانی نہیں کرنا یہ سعادت مندی اور خوش نصیبی ہوتی ہے۔ ساری کائنات ماں کے قدموں تلے ہے، ماں کی دعائیں اولاد کا مقدر بدل دیتی ہیں اور کچھ کم ظرف بیوی کے آتے ہی ماں کا گھر بدل رہے ہیں ۔ ایک شاعر نے شاید اپنے خود غرض بیٹے کے جذبات سے متاثر ہوکر ہی یہ شعر کہا تھا:
یہ خود غرضی کا جذبہ آج تک ہم کو ستاتا ہے
کہ ہم بیٹے تو لے آئے بھتیجہ چھوڑ آئے ہیں
ہماری اہلیہ تو آگئی ’ ماں ‘ چھُٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اُٹھا لائے ہیں اور سونا چھوڑ آئے ہیں
ماں کی تڑپ کس قدر ہوتی ہے اس کا اندازہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن ایک چڑیا کے واقعہ سے نافرمان اولاد کا اگر احساس جاگ اُٹھتا ہے تو اس واقعہ کو پڑھیں۔

’’ سمندر کے کنارے ایک درخت تھا جس پرچڑیا کا گھونسلہ تھا، ایک دن بھیانک طوفان آیا تیز ہوائیں چلنے لگیں ، چڑیا کا گھونسلہ درخت سے نیچے گرا ، اور چڑیا کا بچہ سمندر میں جاگرا۔ چڑیا اپنے بچہ کو نکالنے لگی تو اس کے اپنے پَر گیلے ہوگئے اور وہ لڑکھڑا گئی۔ اس چڑیا نے سمندر سے کہا اپنی لہروں سے کہو میرا بچہ مجھے واپس کردے، لیکن سمندر نے نہیں مانا ۔ چڑیا نے کہا کہ اگر تو نے میرا بچہ واپس نہیں کیا تو میں تیرا سارا پانی پی جاؤں گی اور تجھے ریگستان بنادوں گی۔ سمندر نے اپنے غرور میں کہا میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کرسکتا ہوں ، تو میرا کیا بگاڑ سکتی ہے ۔ چڑیا نے سمندر کی یہ بات سنی تو بولی چل پھر خشک ہونے کیلئے تیار ہوجا۔ پھر سمندر میں سے ایک گھونٹ پانی بھرتی اور درخت پر آکر بیٹھ جاتی ‘ چڑیا نے اس عمل کو دس پندرہ مرتبہ کیا۔ سمندر گھبرا کر بولا پاگل ہوگئی ہو ، مجھے ختم کرنے کی بے کار کوشش کیوں کررہی ہو ؟۔ چڑیا اپنے عمل کو جاری رکھے ہوئے تھی کہ سمندر نے اپنی لہروں سے بچہ کو باہر کردیا۔ درخت جو کافی دیر سے کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا، سمندر سے بولااے طاقت کے بادشاہ تو، تو ایک پل میں پوری دنیا کو غرق کرسکتا ہے تو پھر اس کمزور چڑیا سے ڈر کیوں گیا؟ اس معمولی سی چڑیا سے گھبرا گیا اور اس کے بچہ کو لوٹا دیا۔ درخت کا یہ سوال سن کر سمندر بولا تو کیا سمجھتا ہے میں چاہوں تو تجھے بھی ایک پل میں اُکھاڑ سکتا ہوں، اس پوری دنیا کو ایک پل میں غرق کرسکتا ہوں ، میں اس چڑیا سے ڈرجاؤں ہرگز نہیں، تو ایک ماں سے ڈرا ہوں ، اس کی ممتا کے جذبہ سے ڈرا ہوں۔ جس طرح وہ مجھے پی رہی تھی مجھے لگا کہ واقعی مجھے ریگستان بنادے گی۔‘‘

دوستو! یہ ہوتی ہے ماں ، ایسا نہیں کہ سماج میں ہر اولاد نافرمان ہے بلکہ کئی گھرانوں میں ماں کی عظمت اور اس کی خدمت کرنے والوں کی تاریخی مثالیں بھی موجود ہیں جواپنے اندر خدمت کا جذبہ لئے ضعیف ماں کے احساس کو سمجھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ :

اُجڑے باغوں میں بہار نہیں آتی
سوکھے پھولوں میں نکھار نہیں آتی
گذرجاتی ہے زندگی انکاروں پر
ماں بچھڑ جائے تو بار بار نہیں آتی
ماں کے ساتھ نافرمانی اور فرمانبرداری کا رجحان ہر طبقہ میں بڑی تیزی سے پَر پھیلا رہا ہے ۔ اس عظیم ہستی پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ہندی کے ایک شاعر نے اپنے فرمانبردار بیٹے کے جذبات کی عکاسی ان اشعار میں کی ہے۔
تیری ہر بات چل کر یوں ہی میرے جی سے آتی ہے
کہ جیسے یاد کی خوشبو کسی ہچکی سے آتی ہے
مجھے آتی ہے تیرے بدن سے اے ماں وہی خوشبو
جو ایک پوجا کے دیپک میں پگھلتے گھی سے آتی ہے
یاد رکھو ماں باپ کو ساتھ رکھانہیں جاتا بلکہ ماں باپ کے ساتھ رہا جاتا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد ماں باپ کو ساتھ رکھ کر احسان کررہے ہیں تو یہ جان لیں کہ ماں باپ کا قرض بھی نہیں اُتار سکتے ۔ یہ جو تنا سب کچھ ہے آپ کے پاس یہ ان کی محنت کی وجہ سے ہے۔ ماں دودھ ہی نہیں خون پلاکر پرورش کرتی ہے۔ چند برس پہلے چین میں زلزلہ آیا تو لوگوں کی بڑی تعداد اس آفات سماوی کی زد میں آگئی ، شہر کی کئی عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہوگئیں، عمارتوں کا ملبہ ہٹانے میں کئی دن لگ گئے ۔ جب ایک عمارت کا ملبہ ہٹایا گیا تو دو سالہ ایک بچہ اور اس کی ماں کو بے ہوشی کی حالت میں نکالا گیا، ماں کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں زخمی تھیں اس کے علاوہ نہ بچے کو خراش آئی اور نہ ماں کو، ان دونوں کو دواخانہ منتقل کیا گیا ۔ چند دنوں میں ماں اور بچہ کی حالت بہتر ہوگئی۔ جب ماں سے پوچھا گیا کہ آپ کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں زخمی کیسے ہوئیں، ماں نے بتایا کہ کچھ دن بچہ کو میں اپنا دودھ پلاتی رہی جب دودھ نہ رہا تو میں نے اپنی انگلی بچہ کے منہ میں دے دی ، لیکن بچہ بھوک کی وجہ سے چُپ نہ ہو اور مجھ سے اس کا رونا برداشت نہ ہوا، پھر میں نے انگلی کو زخمی کیا جب اس میں سے خون نکلنے لگا تو میں نے انگلی بچہ کے منہ میں دے دی۔ اس طرح میں اپنا خون پلاکر باقی دنوں اپنے بچہ کو زندہ رکھا۔ ’’ ماں تیری عظمت کو سلام ‘‘

یاد رکھو ماں جب مسکراتی ہے تو اس کے لہجہ میں اتنی مٹھاس ہوتی ہے کہ ساری دنیا کے شہد نچوڑ دیئے جائیں اتنی مٹھاس پیدا نہیں ہوتی ۔ اب بھی وقت ہے کہ ماؤں کے بے ادب‘ ہاتھ جوڑ کر ماؤں سے معافی مانگ لیں ۔ باپ کے گستاخ ، باپ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لیں ۔ اللہ کو راضی کرنا ہو تو ماں باپ کو راضی کرلیں اور ماں کی دعاؤں میں رہو فخر سے کہو :
اپنے شہر کی تازہ ہوا لے کے چلا ہوں
ہردرد کی یاو میں دوا لے کے چلا ہوں
مجھکو یقین ہے کہ رہونگا میں کامیاب
کیونکہ میں گھر سے ماں کی دُعا لے کے چلاہوں
9849172877