ماں کے بغیرگھر سونا ہے تو باپ کے بغیر زندگی …

   

سید جلیل ازہر

جب رزق میں تنگی محسوس ہو تو غور کرلیا کرو کہ ماں باپ کے لئے دُعا کرنا تو نہیں چھوڑ دیا۔ زندگی بڑی تلخ ہوچکی ہے کہ خواہشیں اتنی بڑھ رہی ہیں کہ نسل نو میں والدین کے تعلق سے نفرتوں کا جو تسلسل چل پڑا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ بوڑھے چراغوں کو بجھانے کیلئے وہ نوجوان آندھیاں بن کے نکل پڑے ہیں جبکہ دنیا جانتی ہے :
اگر بچہ تڑپتا ہے تو ماں کا دَم نکلتا ہے
مگر جب ماں تڑپتی ہے تو زم زم نکلتا ہے
یاد رکھوں ماں وہ عظیم ہستی ہے جو اولاد کے سانس لینے کے طریقہ کار سے اندازہ لگالیتی ہے کہ رفتار کی وجہ دُکھ ہے یا خوشی۔ انسان تو انسان ماں اگر ایک مرغی ہے تو غور کریں اور اس کے اندر ممتا کی تڑپ کا اندازہ کیجئے کہ وہ جب انڈے سے بچے باہر آنے کے بعد اس کو کوئی دانہ مل جائے تو وہ مخصوص آواز کے ذریعہ اپنے بچوں کو جمع کرلیتی ہے اور اس کے ٹکڑے کرکے اپنی چونچ کو اُٹھالیتی ہے ۔ غور و فکر کرنے کی بات ہے بلکہ حیرت کی بات ہے کہ ماں اگر بے عقل مرغی ہو تو اس کی ممتا کا یہ عالم ہے تو غور کریں کہ ماں تو اشرف الخلوقات ہے تو اس کی ممتا کا عالم کیا ہوگا، اس کی محبتوں کا عالم کیا ہوگا۔ اس کی شفقتوں کا عالم کیا ہوگا۔
دُعا کو ہاتھ اُٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دُعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
آج سماج میں والدین پر ہورہے مظالم کو سن کراور دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ والدین کے حقوق کو نظرانداز کرتے ہوئے ذہنی اذیت دی جارہی ہے۔ کئی ایک واقعات میں بوڑھے ماں باپ کوئی قانون کی مدد لے رہے ہیں تو کوئی مساجد کی کمیٹیوں سے رجوع ہورہے ہیں کہ میرا بیٹا مجھ کو گھر سے نکال دیا ہے۔ افسوس کہ آج ہر طرف ماں باپ کے ساتھ اولاد کا سکون ناقابل برداشت حد تک تجاوز کرچکا ہے۔ والدین بوڑھے اور کمزور ہوجائیں تو انہیں تکلیف دی جارہی ہے کہ وہ لوگ کسی مرض سے کمزور نہیں بلکہ اولاد کے رویہ سے مایوس ہونے لگے ہیں۔ یاد رکھو ذہن کی وکالت نہیں چلتی جب فیصلے آسمان سے اُترتے ہیں۔ حضرت امام علی ؓ فرماتے ہیںتمہارے والدین تمہیں بچپن میں شہزادوں کی طرح پالتے ہیں لہٰذا تمہارا فرض بنتا ہے کہ اُن کے بڑھاپے میں ان کو بادشاہوں کی طرح رکھو‘‘۔
ماں باپ کے تعلق سے ہندی کے ایک شاعر نے اپنے جذبات کی ترجمانی یوں کی :
بِنا آواز، بِنا آنسو کے جو روتا ہے وہ باپ ہوتا ہے
جو اپنے بچوں کی تکلیفوں کے چھیدوں کو
اپنی بنیان میں پہن لیتا ہے باپ ہوتا ہے
یہ سچ ہے کہ نو ماہ پالتی ہے ماں ہمیں پیٹ میں
نو ماہ جو دماغ میں ڈھوتا ہے وہ باپ ہوتا ہے
بدنصیب اولاد کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہم جس دور جہالت میں جی رہے ہیں جہاں عمل کرنے سے زیادہ فارورڈ (Forward) کرنے میں ثواب سمجھا جانے لگا ہے۔
یاد رکھو! جب ماں چھوڑ کر جاتی ہے توکوئی بھی دعاء دینے والا نہیں ہوتا اور جب باپ چھوڑ کر جاتا ہے تو کوئی حوصلہ بھی دینے والا نہیں ہوتا۔ یا اللہ سب کے والدین کا سایہ اُن کے سروں پر قائم رکھ۔ ایسا نہیں کہ سماج میں ہر اولاد ایسی ہی ہے بلکہ خدمت گذار بیٹوں کی داستانیں بھی قلمبند کی جائیں تو روح کانپ اُٹھتی ہے ۔ کئی لوگ ہیں جو آج بھی اپنے والدین کی تعظیم میں کوئی فرق نہیں آنے دیتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ
کوئی میری تباہی کا ذریعہ ہو نہیں سکتا
ہے جب تک تو میرا دل بے سہارا ہو نہیں سکتا
بہن ہو بھائی ہو بیٹا ہو بیوی ہو کہ محبوبہ
کسی کا پیار ماں کے پیار جیسا نہیں ہوسکتا
یاد رکھو! ماں کی دُعا وقت تو کیا نصیب بدل دیتی ہے۔ سچائی کا پیکر لازوال محبت، شفقت، تڑپ ، قربانی جب یہ تمام لفظ یکجا ہوجائیں تو بن جاتا ہے تین حرفوں کا لفظ ’’ماں ‘‘ زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے جو توجہ کا محتاج ہے۔ والدین کی خدمت میں لگے رہیں کیونکہ زندگی کا پہلا غسل بھی کسی نے دیا اور آخری غسل بھی کوئی دے گا، اور یہ حضرتِ انسان کی اوقات جو طاقت ملتے ہی اپنا پہلا اور آخری غسل بھول جاتا ہے ۔ اپنی اولاد سے ڈرنے لگی ہیں مائیں بلکہ مجبور ہوکر ایک ماں یوں کہتی ہے:
اگر ٹوٹا ہوا چشمہ میرا بنوادیا ہوتا
تو میں اچھا شگون اچھا مہورت دیکھ سکتی تھی
مجھے کب شوق دنیا دیکھنے کا تھا میرے بیٹے
مگر چشمہ لگا کے تیری صورت دیکھ سکتی تھی
زبان انسان کی شخصیت اور سوچ کی وضاحت کردیتی ہے۔ ایک شخص دفتر سے گھر پہنچتے ہی فوری اپنی اہلیہ کو تیار ہوجانے اور شام کا کھانا ہوٹل میں کھانے کیلئے کہتا ہے اور حضرتِ انسان جس کی زندگی اسی ضعیف ماں کی دین ہے ، ماں کہتی ہے بیٹا مجھے گیاس کا چولہا جلانے نہیں آتا، تو ان کی اہلیہ فرماتی ہیں گھر کے قریب میں لنگر لگا ہے کچھ ہی فاصلہ پر واقع ہے آپ وہاں چلے جایئے پکانے کی بھی تکلیف نہیں ہوگی۔
یہ باتیں دس سالہ ان کا لڑکا بڑی معصومیت سے سنتا رہا اور جب ہوٹل جانے لگے تو راستہ میں معصوم لڑکا اپنے ماں باپ سے کہتا ہے: ’’ ممی ! میں جب بڑا ہوجاؤں گا تو اپنا گھر کسی لنگر کے بالکل قریب ہی بناؤں گا۔‘‘ باپ حیرت زدہ ہوکر پوچھتا ہے ’’کیوں ؟ ‘‘ تو معصوم لڑکا کہتا ہے کہ’’ جب میں اپنی بیوی کے ساتھ ہوٹل میں کھانے جاؤں تو تمہیں لنگر جانے کیلئے زیادہ فاصلہ طئے کرنا نہ پڑے۔‘‘
یاد رکھو!جب لہریں بے جان ہوکر رُک جائیں تو سمندر کے نیچے طوفان سر اُٹھالیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے ماں باپ کی توہین کریں اور آپ کی اولاد آپ کے سر پر عزت کا تاج سجادے۔ آپ کے کئے پر تاریخ آپ پر ہی دہرائی جائے گی۔ یاد رکھیں آپ کے ہاتھوں سے ٹوٹا ہوا دل ایک دن آپ کی بربادی کا دروازہ بن جاتا ہے۔ عبرت اور بربادی کا ایسا دروازہ جو آپ کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اور آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ
نہ اپنوں سے کُھلتا ہے نہ غیروں سے کُھلتا ہے
یہ جنت کا دروازہ ماں کے پیروں سے کھلتا ہے
فون نمبر 9849172877