ماہر نفسیات ڈاکٹر قطب الدین سے یادگار ملاقات

   

سید جلیل ازہر
خدا نے جب یہ زمین بنائی تھی تو کسے معلوم تھا کہ یہ کرۂ ارض اینٹ پتھر اور مٹی کے ایک وسیع ترین مجموعے کے علاوہ بھی کچھ اور ہے جب سمندر وجود میں آیا جب زمین اور آسمان کے بیچ خلاء دکھائی پڑی تو کس کا ذہن گیا ہوگا کہ اس درمیان انگنت دنیائیں بھی تیر رہی ہیں مگر زمین کے اندر ناقابل قیاس حد تک قیمتی خزانے موجود ہیں اور سمندر بے پناہ دولت کا خزینہ اپنے سینہ میں محفوظ کیئے ہوئے ہے۔ اس طرح انسانی جسم کو بھی انسان کی کم عملی نے ہزاروں سال تک ہاتھ، پیر، آنکھ، کان، ناک ایک سانس لیتا ہوا مجسمہ سمجھا مگر جیسے جیسے انسانی شعور بیدار ہوتا گیا علم کا سرمایہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا گیا۔ انسانوں نے زمین سمندر اور خلاء کو بھی سمجھنے کی کوشش کی اور سب سے زیادہ اپنی ذات کے اندر چھپی ہوئی صلاحیت کی دولت کو اجا کرتے ہوئے دوسروں کے دکھ درد بانٹنے بیوائوں یتیموں اور دیگر مستحقین کی مدد و اعانت کے جذبہ سے سرشار ہوکر بے سہارا لوگوں کا سہارا بنے جن میں ایک نام ممتاز این آر آئی و ماہر نفسیات جناب ڈاکٹر قطب الدین صاحب کا بھی آتا ہے جو چالیس برس سے شکاگو میں مقیم ہیں اور ان کا تعلق محبوب نگر کے ضلع نارائن پیٹ سے ہے جن میں ملت کے پریشان حال لوگوں کے تعلق سے خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ مگر گزشتہ ہفتہ حیدرآباد میں ڈاکٹر قطب الدین صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں انہوںنے اپنے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے نسل نو کو جو پیام دیا ہے اسکو قلمبند کررہا ہوں۔ قطب الدین ماہر نفسیات نے بتایا کہ انسان کی کامیابی کے لیے دو خوبیاں بے حد اہمیت رکھتی ہیں اول خود اعتمادی جو ہر مقام پر ساتھ دیتی ہے حوصلہ بلند کرتی ہے اور لوگوں کے سامنے سرخرو کرتی ہے۔ دوم مضبوط قوت ارادی جس کے تحت انسان اپنی حصول منزل کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ مضبوط قوت فیصلہ خود ہی پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی سے ضرور ہمکنار کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے مقاصد کی منزل کو تلاش کرنے کے لیے جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ نتیجہ خواہشوں کا نہیں کوششوں کا نکلتا ہے۔ والدین پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے نو نہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں کوئی لاپرواہی نہ کریں کیوں کہ تعلیمیافتہ نسل ہی تہذیب یافتہ معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کامیاب لوگ اپنے فیصلوں سے دنیا بدل دیتے ہیں اور کمزور لوگ دنیا کے ڈر سے اپنے فیصلے بدل دیتے ہیں۔ اس لیے ایک نوجوان نسل کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وقت پیدا کرنے والے کو وقت دے کر دیکھو وہ تمہارا وقت ضرور بدل دے گا۔ آج میں جس مقام پر پہنچا ہوں یہ میرے والدین کی دعائوں کا صدقہ ہے۔ آج میرے چاہنے والوں کو اپنے قد سے اونچا نظر آتا ہوں والدین کی تربیت اور میری تعلیم کے معاملہ میں خصوصی توجہ کا اثر ہے کہ میں اس مقام پر پہنچا ہوں۔ اس لیے کہ تنگدستی، غریبی اور مفلسی کا قتل کرنے والی ایک ہی تلوار ہے ’’تعلیم‘‘ اس سے یہ مطلب نہیں کہ آپ صرف عصری تعلیم حاصل کریں بلکہ مذہبی تعلیم بھی بے انتہا ضروری ہے۔ اپنی اردو زبان کو بھی ترقی اور ترویج کے لیے خصوصی توجہ مرکوز کریں۔ میں نے خود دسویں جماعت تک اردو میں تعلیم حاصل کی ہے نارائن پیٹ کے اردو اسکول میں میری تعلیم اردو میں ہوئی بعدازاں عثمانیہ میڈیکل کالج سے میں نے ایم بی بی ایس کیا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد میں نے امریکہ کا رخ کیا اور امریکہ میں اپنی پروفیشنل زندگی کے آغاز کے ساتھ مزید اعلی تعلیم کا تسلسل جاری رکھا۔ امریکہ کے نظام تعلیم کی حصوصیات یہ ہیں کہ یہاں کے تعلیمی ادارے خود مختار ہیں۔ اس میں کسی قسم کا کوئی سیاسی عمل و دخل نہیں ہے۔ یہاں پر تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر قطب الدین کئی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے ہیں اور نفسیات کے موضوع پر وہ بین الاقوامی سطح پر لکچرز دیتے رہے ہیں۔ آج کے پر آشوب دور میں لوگ اپنی فکر اور اپنی ترقی کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر قطب الدین ممتاز این آر آئی کو ملت کے یتیم، یسیر، بیوائوں اور بے سہارا طلباء و طالبات کی فکر رہتی ہے۔ یہ اپنے وطن عزیز سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ چالیس برس سے امریکہ میں خدمات انجام دیتے ہوئے جب بھی ہندوستان آتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح فلاحی خدمات اور بے سہارا لوگوں کی خاموش مدد کرنا ان کا نصب العین ہے۔ یہ بار بار کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے نونہالوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی طرف متوجہ کرنا ہر ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے تعلیم کو عام کرنے کے جذبہ کے تحت بہت ہی کم عمر میں نارائن پیٹ میں اردو لائبریری کا قیام عمل میں لایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے زور دے کر کہا کہ اسلام اس پڑوسی کی مذمت کرتا ہے جس کا پڑوسی بھوکا ہوتا ہے اپنے لیے تو کوئی بھی جیتا ہے لیکن دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے دوسروں کے کام آنا ہی انسانیت ہے۔ کیوں کہ مسلم معاشرہ کی خدمت اسلام کی خدمت ہے۔ اسلام کی خدمت بھی عبادت ہی ہے۔ ہر صاحب استطاعت کی یہ ذمہ داری ہے کہ سماج میں کئی طلباء و طالبات خراب مالی حالت کی وجہ تعلیم سے محروم ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اپنے علاقوں میں ایسے بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہوئے انہیں تعلیم دلوانے میں آگے آئیں کیوں کہ موجودہ حالات میں سنجیدگی سے مسلمانوں کی تعلیمی معاشی حالت کا جائزہ لیا جائے تو یہبات صاف نظر آتی ہے کہ مسلمان کی ذلت دولت کی قلت کے باعث نہیں بلکہ اسلام سے غفلت کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے ادبی تخلیق کاروں اور قلم کاروں کو مشورہ دیا کہ ادب کی تخلیق تسکین قلب ہی کا ذریعہ نہ ہو بلکہ ادب انسانی معاشرہ کے لیے مشعل راہ ہو کیوں کہ اسلامی نظریات اور معیاری و اصلاحی ادب سے قاری کی زندگی میں انقلابی تبدیلی رونما کرکے فکری بیداری پیدا کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے آخر میں سرپرستوں اور والئدین کو مشورہ دیا کہ بچپن کی تربیت گیلی مٹی کی طرح ہوتی ہے، جدھر کو چاہیں موڑ لیں۔ آپ بچوں کو دین کی طرف موڑیں رب العالمین کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے کیوں کہ جو ذات رات کو درختوں پر بیٹھے پرندوں کو نیند میں گرنے نہیں دیتی وہ ذات انسان کو کیسے بے یار و مددگار چھوڑ سکتی ہے۔ لہٰذا کسی بھی شعبہ میں ترقی چاہتے ہوں تو نیک نیتی سے محنت کرو، کامیابی خود آگے بڑھ کر تمہارے قدم چومے گی۔