متحدہ عرب امارات کی اسرائیل سے دوستی کی قیمت

   

ایلی لیک
ڈاکٹر انور بن محمد قرقاش وزیر خارجہ متحدہ عرب امارات یہ سمجھ نہیں سکتے کہ کیوں اسرائیل نے امریکہ پر تنقید کی ہے جو اپنے ملک کے F-35 لڑاکا جیٹ طیارے فروخت کررہا ہے۔ متحدہ عرب امارات ان عرب ممالک میں سے ایک ہے جن سے اسرائیل کی جنگ کبھی نہیں ہوئی۔ آخر کار اب وہ اپنے تعلقات یہودی مملکت کے ساتھ معمول پر لانا چاہتا ہے۔ ان نئے دوستوں کے درمیان ترقی یافتہ ہتھیاروں کے نظام پر بات چیت ہو رہی ہے۔

جاریہ ہفتہ بحراوقیانوس کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ ایک کانفرنس میں F-35 کی فروخت پر اسرائیلی اعتراض کے بارے میں جب سوال کیا گیا تب قرقاش نے کہا تھا کہ ممکن ہے کہ یہ اسرائیل کی داخلی سیاست کی وجہ سے ہو انہوں نے بنجامن نتن یاہو کے تبصرہ پر جو اسلحہ کی فروخت کے بارے میں تھا جو تعلقات معمول پر لانے کے معاہدہ کا ایک حصہ نہیں تھے، اعتراض کیا تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ پر دستخط حکومت امریکہ کی جانب سے F-35 لڑاکا جیٹ طیاروں کی فروخت کے راستہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ لیکن یہ بھی واضح نہیں ہے۔ 1973 سے امریکہ بڑے پیمانے پر ایک پالیسی پر عمل پیرا ہے جو اسرائیل کو ’’فوجی برتری‘‘ دینے کے مقصد سے ہے۔ عرب ممالک پر اس علاقہ میں اسلحہ کی فروخت کے لحاظ سے اسرائیل کو برتری عطا کرنا امریکی پالیسی کا مقصد تھا اور ہے۔ عملی اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امریکہ اسلحہ کے نظام عرب ممالک کو فروخت نہیں کرے گا جن سے ان کی صلاحیت اسرائیل کی ہتھیاروں کے نظام کی صلاحیت پر برتری حاصل کرلے اور اس عمل میں امریکہ پر امریکی کانگریس کا اثر و رسوخ بھی ہے جس کی ذمہ داری اسلحہ کی فروخت کی منظوری دینا ہے۔ لیکن اسرائیل کو ہمیشہ اپنی من پسند چیزیں حاصل نہیں ہوتیں، مثال کے طور پر 1981 میں امریکہ نے جاسوس طیارے سعودی عرب کو فروخت کئے تھے حالانکہ اسرائیل کو اس پر اعتراض تھا اور امریکی کانگریس نے معمولی اکثریت سے اس فروخت کی منظوری دی تھی۔

اسرائیل نے جاریہ ہفتہ کہا کہ وہ F-35 کی امارات کو فروخت کی منظوری نہیں دیتا۔ تاہم امریکہ نے فروخت شروع کردی۔ امریکی سفیر برائے اسرائیل ڈیویڈ فرائیڈ مین نے جاریہ ہفتہ یروشلم پوسٹ سے کہا کہ آئندہ متحدہ عرب امارات کو فوجی خرید و فروخت QME طریقہ کار کے ذریعہ ہوگی۔ انہوں نے اجازت دی کہ ایک بار امریکہ کو اجازت دی جائے کہ وہ متحدہ عرب امارات کو F-35 فروخت کرے۔

اسرائیل کے موقف کے بارے میں دو اچھی دلیلیں ہیں سب سے پہلے یہ کہ آج کے دوست کل کے حریف نہیں ہوسکتے۔ تازہ ترین مثالوں میں سے بہترین یہ ہے کہ ترکی میں جو کچھ ہوا حالانکہ وہ ناٹو کا حریف تھا ترکی نے کئی دہائیوں تک امریکہ کے بعض انتہائی نفیس ترین ہتھیاروں کے نظام خریدے۔ اسرائیل کے ترکی کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں جو اس کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ترکی کو حالیہ عرصہ میں سرکش مملکت مغربی ممالک نے قرار دیا کیونکہ اس نے جدید ترین فضائی دفاعی نظام روس سے خریدے تھے اور وینیزویلا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ گزشتہ ہفتہ صدر ترکی رجب طیب اردغان نے دھمکی دی کہ تمام سفارتی تعلقات متحدہ عرب امارات کے ساتھ ترک کردیئے جائیں گے کیونکہ اس نے اسرائیل کے ساتھ حسب معمول سفارتی تعلقات کا معاہدہ کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی قیادت آج اعتدال پسندوں اور واجبی قائدین کے ہاتھ میں ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوگا۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت ایک غلط مثال قائم کرے گی۔ لڑاکا جیٹ طیارے اسرائیل کو بھی فروخت کئے گئے تھے۔ دوسری دلیل یہ کہ عرب ممالک کا مزاج بدلتا رہتا ہے اور وہ امریکہ کے حلیف بھی ہیں اور اس سے ہتھیار بھی خریدنا چاہتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ اس کی قیمت چکاتے ہوئے ان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات حسب معمول کرلئے ہیں۔ آج تک QME طریقہ کار صرف اسرائیل اور اردن کے لئے دستیاب تھا جن کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے ہیں۔ لیکن ہر شخص اس سے متفق نہیں ہیں۔ متحدہ عرب امارات راستے بدلنے والا ہے۔ سابق مشیر برائے امریکی قومی سلامتی کونسل جس کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں، ڈیویڈ ورمسر نے کہا کہ راستہ بدلنے والے کو انعام دیا گیا ہے جبکہ ورمسر کا کہنا ہے کہ وہ اس میں یقین نہیں رکھتے کہ F-35 کی سعودی عرب کو فروخت دانشمندی ہوگی لیکن انہیں متحدہ عرب امارات پر زیادہ اعتماد ہے کہ وہ آئندہ کے برسوں میں بھی مستحکم رہے گا۔ وہ کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ متحدہ عرب امارات کو F-35 کی فروخت کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ سعودیوں کو یہی طیارے فروخت کئے جائیں۔ ایک اور زیر التواء تشویش بھی ہے، امریکہ فی الحال منصوبہ بنا رہا ہے کہ ایران پر عائد تحدیدات واپس لے لی جائیں اور ان کے بدلے روایتی ہتھیاروں پر امتناع عائد کیا جائے جو اکتوبر میں ختم ہو جائے گا لیکن یہ اقدام خطرہ سے بھرپور ہے۔روس اور چین کے لئے یہ ایک سنہرا موقع ہے کہ اسلحہ کے بارے میں کسی معاہدہ کو نظرانداز کردیں کیونکہ امریکہ نے تحدیدات عائد کررکھی ہیں۔ ایران کے نیوکلیر معاہدہ پر جو 2015 میں کیا گیا تھا یہ شرط شامل نہیں ہے۔ اس سے متحدہ عرب امارات کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ وہ جدید ترین لڑاکا جیٹ طیارے حاصل کرے جس سے اس کو روس اور چین پر حقیقی برتری حاصل ہو جائے گی جو ایران کو ہتھیار فروخت کرتے ہیں۔

فیلڈمین نے اپنے انٹرویو میں اس کا اشارہ دیا تھا ’’آخر کار درست حالات میں امریکہ ۔ اسرائیل کو بڑا فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ آبنائے ہرمز میں وہ ایران کے مستحکم حلیف ہوں گے‘‘۔ انہوں نے یہ انٹرویو یروشلم پوسٹ کو دیا تھا۔ اس اتفاق پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں حلیف تبدیل ہو رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات دشمن سے دوست بن چکا ہے۔ اسرائیل اپنی قومی سلامتی میں اضافہ کررہا ہے، تاہم اس دوستی کی قیمت یہ ہوگی کہ اس سے فوج کو فائدہ حاصل ہوگا اور تقریباً 50 سال تک اسرائیل کو انتہائی اہم دوست حاصل ہوگا (بلومبرگ) ۔