متوسط طبقہ اپنے ماسٹر کا غلام

   

روش کمار
کووڈ ۔ 19 نے ہندوستان کے متوسط طبقہ کا نیا چہرہ متعارف کروایا ہے۔ ایسا چہرہ جسے بنانے میں چھ سال لگے ہیں۔ آج وہ چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔ ناقدین حیران ہیں کہ ملازمت اور تنحواہ گنواکر متوسط طبقہ خاموش کیوں ہے۔
مزدوروں کی حالت زار پر متوسط طبقہ خاموش کیسے ہے؟ میں نے پہلے بھی لکھا ہے اور پھر لکھ رہا ہوں کہ جب متوسط طبقہ اپنی حالت زار پر خاموش ہے تو مزدوروں کی حالت زار پر کیسے منہ کھولے؟ متوسط طبقہ کوئی مستقل جگہ نہیں ہے اس لئے اس کا معنی و مطلب بھی مستقل نہیں ہوسکتا۔میں آج کے متوسط طبقہ کو ماسٹر کا متوسط طبقہ کہتا ہوں وہ متوسط طبقہ نہیں رہا جو ماسٹر کو ڈرانا تھا یا ماسٹر جس سے خوف کھاتا تھا۔ ہندوستان کے متوسط طبقہ کی دبی ہوئی حسرت تھی کہ کوئی ایسا ماسٹر آئے جو ہنٹر چلائے۔ اس کے لئے اسے مسائل کا حل یا تو فوج کے ڈسپلن میں نظر آتا تھا یا پھر ہٹلہ کی شکل میں۔ہندوستان کا متوسط طبقہ اب جمہوری عزائم کا حامل طبقہ باقی نہیں رہا۔ اس لئے جمہوری اداروں کے زوال کا وہ بیباک مخالف بھی نہیں رہا۔یہ ممکن ہے کہ متوسط طبقہ تنخواہ میں کمی ہونے یا نوکری چلے جانے سے اداس ہو لیکن وہ باہر سے اس ہوا کے ساتھ دکھنا چاہتا ہے جسے وہ بناتے رہا ہے۔ اس نے اس ہوا کے خلاف اٹھنے والے ہر سوال کو کچلنے میں ساتھ دیا ہے۔ گودی میڈیا کو ناظرین اسی متوسط طبقہ نے مہیا کروائے۔

گودی میڈیا کے لئے آسامیوں پر حملہ تک کیا، اب اگر متوسط طبقہ میں کسی طرح کی بے چینی یا ناراضگی ہے بھی تو وہ کونسا چہرہ لیکر اُس میڈیا کے پاس جائے گا جس کے گودی میڈیا بننے میں اُس کا بھی کردار رہا۔ اس لئے وہ اپنی خاموشیوں میں قید ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ اگر اس ملک میں کروڑوں لوگ بیروزگار ہوئے ہیں تو اس میں متوسط طبقہ کے تمام زمروں کے لوگ ہوں گے لیکن انہوں نے اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر اپنی بے چینی ظاہر نہیں کی اپنے لئے بیروزگاری بھتہ نہیں مانگا۔ متوسط طبقہ نے 6 سال سے ہر اٹھنے والی آواز کو کچلنے کا کام کیا ہے۔ اسے پتہ ہیکہ آواز کا کوئی مطلب نہیں۔ وہ جس گودی میڈیا کا محافظ بنا رہا ہے اس سے بھی نہیں کہہ سکتا کہ ہماری آواز اٹھائے۔
نریندر مودی نے ایک ایسے متوسط طبقہ کی تخلیق کی ہے جو اپنے طبقہ کے مفادات کا یرغمال نہیں ہے۔ اس کا مفاد صرف اور صرف نریندر مودی ہے۔ یہ اسٹیٹ کا
Square
ہے جو حکومت کا طبقہ ہے۔ یہ وہ متوسط طبقہ یہ جو صرف حکومت کی تعریف کرنا چاہتا اور تعریف میں شائع خبروں کو پڑھنا چاہتا ہے۔ اس متوسط طبقہ نے آئی ٹی سل کو کھڑا کیا اس کی زبان کو سماجی بنیاد فراہم کی۔ حکومت کی حمایت میں کھڑے صحافیوں کو ہیرو بنایا یہ طبقہ کہیں سے بھی کمزور نہیں ہے۔ اس لئے میں نے کئی ناقدین سے کہا ہے کہ متوسط طبقہ کی خاموشی کا دوسرا مطلب نہ نکالے۔

بیروزگاری کے موضوع سے طبقہ کے نئے بنے قومی کردار کو توڑنے والے دھوکہ کھاچکے ہیں۔ اس متوسط طبقہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ 6 برسوں کے دوران اس کی کمائی گھٹ گئی ہے۔ اس کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔ اس کے مکانات کی قیمتیں گر گئی ہیں یہ سب وہ جانتا ہے لیکن یہ مسائل اس کی ترجیحات نہیں ہیں۔ اس طبقہ نے بیروزگاری جیسے سلگتے مسئلہ کو ہندوستان کی سیاست سے ختم کردیا۔ تب ہی تو حکومت ہریانہ نے جب کہا کہ ایک سال تک سرکاری ملازمتوں پر بھرتی نہیں ہوگی تو متوسط طبقہ نے اسے بھی بڑی خوشی کے ساتھ قبول کیا۔ ہر ریاست میں سرکاری نوکریوں میں بھرتی کے خراب عمل سے دوچار ہے لیکن یہ ناتو ان نوجوانوں کی سیاسی ترجیح ہے اور ناہی ان کے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ماں باپ کی ترجیح ہے۔

متوسط طبقہ کی پہچان بیروزگاری کی آگ اور نوکری کے اندر زندگی کے حدود سے ہی تھی آج کا متوسط طبقہ ان سرحدوں سے آزاد ہے۔ متوسط طبقہ مسائل کا طبقہ نہیں ہے۔ بھلے 6 برسوں میں اس نے کئی مسائل کو کچل دیا۔ ریاست کو معاشی چشمہ سے دیکھنے والے تاریخی شکل کے لحاظ سے بھلے صحیح رہے ہوں لیکن ہندوستان کی تاریخ کے اس کے دور میں وہ غلط ہیں۔ خیال رہے کہ میں نے متوسط طبقہ کو مستقل طبقہ نہیں کہا ہے جب بدل جائے تب بدل جائے گا مگر آج وہ ایسا ہی ہے۔ کوئی بھی طبقہ ایک مطلب یا معنی میں نہیں سما سکتا ہے ہر طبقہ میں کئی طبقے ہوتے ہیں متوسط طبقہ میں بھی ایک چھوٹا سا طبقہ ہے مگر وہ سیاست یا حکومتوں پر پڑنے والے دباو کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ وہ اپنے خلاقی اقدار کے تئیں جواب دہ ہے۔ اس لئے وہ اپنی کمائی لٹا کر عوامی خدمت کررہا ہے لیکن اس کی یہ عوامی خدمت بھی اپنے طبقہ کو جھنجھوڑ نہیں پارہی ہے کہ اب تو بولا جائے۔
متوسط طبقہ کے اندر کا دوسرا طبقہ اپنے طبقہ کے مفادات سے الگ تھلگ ہے مایوس ہے لیکن وہ یہ قبول نہیں کرپا رہا ہے کہ اس کے طبقہ کا ایک بڑا حصہ بدل گیا ہے۔ اس کی تشکیل تو ہوئی ہے اچھا ہو چاہے برا ہو وہ یہ متوسط طبقہ نہیں ہے جسے آپ کسی پرانے پیمانوں سے سمجھ سکیں۔اس متوسط طبقہ کی پہچان طبقہ سے نہیں بلکہ مذہب سے ہے ممکن ہے کہ مذہب کی آدھی ادھوری سمجھ ہو لیکن اس کے اس تشکیل جدید میں مذہب کا اہم کردار رہا ہے۔
یہ طبقہ معاشی لحاظ سے کارفرما یا ترغیب نہیں پاتا اس نے کئی بار ایسے معاشی بحرانوں کو درکنار کردیا ہے۔ اسی لئے تجزیہ نگار اس کی معاشی مشکلات میں سیاسی امکانات تلاش کرنے کی ناکام کوشش نہ کرے یہ قبول کرے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے لئے ایک طبقہ کی تخلیق کی ہے۔
یہ وہ طبقہ ہے جس کے حصہ میں 15 لاکھ ناجانے کا آپ نے کتنا مذاق اڑایا لیکن اس طبقہ نے مذاق اڑانے والوں کو دھویں میں اڑا دیا۔ مخالفین کو امید تھی کہ 15 لاکھ روپے کی بات یاد دلانے سے متوسط طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ متوسط طبقہ نے یاددلانے والوں کو ہی ٹھیس پہنچا دی جب اس متوسط طبقہ نے 15 لاکھ روپے کی بات کو اہمیت نہیں دی تو آپ کو کیوں لگتا ہے کہ وہ معاشی پیاکیج میں 5 یا 50 ہزار کا انتظار کرے گا۔ نوٹ بندی کے وقت بربادی اس طبقہ کی بھی ہوئی لیکن اس نے اپنی قومی شناخت کے سامنے کاروبار کی بربادی کے سوال کو نہیں آنے دیا۔ تجزیہ نگار اس تبدیلی کا اندازہ بے شک کریں مگر اس بحران میں سیاسی تبدیلی کی امید نہ کریں۔
اس کا جائزہ کمزور پڑھ جائے گا۔ متوسط طبقہ کا فخر بدل گیا ہے۔
متوسط طبقہ کو اپنے تجربات سے پتہ ہے کہ میک ان انڈیا ناکام ہوگیا۔ اسمارٹ سٹی پراجکٹ کے نام پر وہ ہنستا ہے۔ وہ خود انحصار بھارت کی جملہ بازی کو بھی جانتا ہے وہ ہر طرح کے جھوٹ کو جانتا ہے اس نے جھوٹ کو سچ سوچ سمجھ کر قرار دیا۔ اس نے گودی میڈیا کو اپنا میڈیا یوں ہی نہیں بنایا ہے۔ اس کے اندر کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ اسی لئے وہ سیاسی دباو نہیں بنائے گا۔ اپنی بات آہستہ کہے گا کسی سے کہے گا مجھ سے بھی کہے گا تو پورا خیال رکھے گا کہ اس سے اس کے اندر کوئی نئی سیاسی عمل شروع نہ ہوجائے۔ مطلب وہ مودی جی پر تنقید بالکل نہیں کرے گا وہ تھالی بجانا چھوڑ کر مشعل اٹھانے والا نہیں ہے۔ وہ بیانر لیکر جلوس میں جانے والا نہیں ہے۔ اس لئے جب بھی وہ مسئلہ بنائے تو آپ چپ چاپ اسے لکھ دیں آواز اٹھا دیں۔ آپ کا کام ختم ہوتا ہے۔

کووڈ۔ 19 کے بحران میں ہندوستان کے متوسط طبقہ نے اپنے لئے کسی بھی مطالبہ کو لیکر ہمت نہیں دکھائی۔ بے شک چلتے پھرتے کہا کہ تنخواہ کیوں کم کی اور نوکری کیوں گئی۔ ای ایم آئی کیوں نہیں کم ہوئی تاہم کہنے کے بعد وہ ہی بھول گیا کہ اس نے کیا کہا۔ اب حکومت پر منحصر ہیکہ اس نے 6 سال میں جس متوسط طبقہ کی تشکیل جدید کی ہے اسے کیا دیتی ہے نہیں بھی دے گی تب بھی حکومت بالکل بے فکر ہوسکتی ہے کہ اس کی بنائی ہوئی عمارت اتنی جلدی گرنے والی نہیں ہے۔ یہ متوسط طبقہ اس کا ساتھ دینے والا طبقہ ہے۔ ایک صحافی کی نظر سے مجھے یہ بات حیران ضرور کرتی ہے کہ مودی سرکار نے مڈل کلاس کے بارے میں کیوں نہیں سوچا اور نہیں سوچا تو اس طبقہ نے آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ دوچار لوگ بے شک بولتے سنائی دیئے لیکن ایک طبقہ کی آواز سنائی نہیں دی۔ہندوستان کا متوسط طبقہ اب طویل تحریر بھی پڑھنا نہیں چاہتا چاہے اس میں اس کی بھلائی کی بات کیوں نہ لکھی ہو اسے سب کچھ وائس اپ
memes
کی شکل میں چاہئے
EMI
پر جینے والا یہ طبقہ تعلیم بھی اقساط میں چاہتا ہے۔

Mim
اس کے علم کی

EMI ہے اس کا خواب تبدیل ہوگیا ہے وہ ٹک ٹاک پر اپنے آپ کو بے مطلب ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ آپ ٹک ٹاک میں متوسط طبقہ کی زندگی اور خواہشات میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں ہشیار لیڈر اگر معاشی پیاکیج کی جگہ اچھا سیریل دے دے تو متوسط طبقہ کی راتیں بدل جائیں گی وہ ان سیریلس میں پہنے گئے ملبوسات اور ادا کئے گئے ڈائیلاگ پر جینے لگے گا۔ قومی بحران کے اس دور میں متوسط طبقہ کے قومی کردار کا مشاہدہ ہی نہ کر پائے تو کس بات کے شوشلسٹ ہو آپ۔