مجاہدِ اُردومرزا عبدالقیوم ندوی President Read & Lead Foundation

   

سعید حسین

مرزا ورلڈ بک ہاؤس کے مالک جنہوں نے اورنگ آباد اور اس کے اطراف و اکناف اردو کتابوں کی فروخت میں ریکارڈ قائم کیا۔ President Read & Lead Foundation مرزا عبدالقیوم ندوی ایک ایسی حرکیاتی شخصیت کا نام ہے جس نے نہایت ہی کم عرصہ میں اورنگ آباد میں نہیں بلکہ ملک کے بیشتر ریاستوں میں اردو کتب کی فروخت میں اپنا نام روشن کیا ہے۔
روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ ممبئی نے صفحہ اول پر یہ خبر جلی حروف میں شائع کی۔ اُردو رسالہ’’بچوں کی دنیا‘‘ جو قومی کونسل برائے اردو دہلی سے شائع ہوتا ہے اس کی اشاعت پورے مہاراشٹرا میں نمبر ون پر ہے اور یہ اخبار لکھتا ہے کہ صرف 2 ماہ میں رسالہ ’’بچوں کی دنیا‘‘ کی مہاراشٹرا میں ایک لاکھ پانچ سو کاپیاں فروخت ہوئیں۔
22؍جنوری 2014ء اردو ٹائمز گلدستہ لکھتا ہے ’’دنیا کی سب سے بڑی خبر قومی اردو کونسل دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’بچوں کی دنیا‘‘ جنوری 2014ء میں 30,000 کاپیاں فروخت ہوئیں اور فروری کا شمارہ کے لئے 50,000 کاپیوں کا آرڈر دیا گیا ہے جو ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی اردو ادب کی کتابوں کا اتنا بڑا آرڈر نہیں دیا گیا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید ساری دنیا کے لئے ہدایت اور علم حاصل کرنے کی کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ جس نے سمجھ کر کیاوہ فلاح پایا اور جس نے اسی پر صدق دل سے عمل کیا وہ مومن بنا۔
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔ رَبِّ ذِدْنِیْ عِلْمًا۔ (اے میرے رب میرے لئے علم میں زیادتی عطا فرما۔)
رب اشرح لی صدری ویسرلی امری۔ (اے میرے رب میرا سینہ کھول دے اور میرا کام (قرآن فہمی) آسان فرما دیجئے)
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
’’قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد ِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت ِکردار‘‘
مندرجہ بالا 2 آیات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ علم کی کیا اہمیت ہے۔
ہندوستان میں تقریباً 65 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں لیکن ریاست کیرالا ایک ایسی ریاست ہے جہاں پر مرد و خواتین تقریباً 90 فیصد تعلیم یافتہ ہیں اسی وجہ سے سارے ہندوستان میں ریاست کیرالا کی معیشت مستحکم ہے ریاست تلنگانہ اور خاص طور پر شہر حیدرآباد میں تعلیم سے زیادہ فضول خرچی اور تعیشات پر روپیہ خرچ کیا جاتا ہے جو صرف جہالت کی علامت ہے۔ چنانچہ علم حاصل کرنے کے جذبہ کو پروان چڑھانے کے لئے بچپن سے ہی بچوں کو راغب کیا جائے تو بچوں میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگا۔اسی جذبہ کو فروغ دینے کے لئے مرزا عبدالقیوم صاحب اہل اورنگ آباد نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ آپ کے کام کو سراہتے ہوئے مہاراشٹرا کے اخباروں نے صفحہ اول پر ان کے کام کو شائع کرکے ان کی کوششوں کو سراہا ہے جو صحافت کا ایک فریضہ ہے آج کل مسلمان قرآن اور سنت کو چھوڑ کر فرقوں اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہالت کے دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔اورنگ آباد ایک تاریخی شہر ہے اس سرزمین نے ایسے ایسے سپوت پیدا ہوئے ہیں جو تاریخ میں زندہ ہیں۔ اورنگ آباد کی نامور ہستیوں میں یوں تو بے شمار نام ہیں جن میں چند ایک کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ ولی اورنگ آبادی، سراج اورنگ آبادی، سکندر علی وجد، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر رفیق زکریا قاضی سلیم اور بشرنواز قابل ذکر ہیں۔ دور حاضر میں یوں تو کئی لوگ شہر اورنگ آباد کا نام روشن کررہے ہیں جن میں ایک مبلغ دین ایڈوکیٹ فیض سید صاحب ہیں جو تبلیغ دین کے لئے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دین کی دولت سے مالامال کرے اور ان کے کام میں انہیں استقامت عطا کرے۔ آمین
اتنی طویل تمہید باندھنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ مرزا صاحب کا صحیح تعارف پیش کروں ۔ مرزا صاحب کی ابتدائی تعلیم چوتھی جماعت تک ضلع پریشد مراٹھی اسکول نارے گاؤں میں ہوئی، دینی تعلیم مدرسہ عربیہ انوار العلوم نگینہ مسجد میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک کی عظیم دینی درسگاہ اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم ندوہ سے حاصل کی، وہاں 1993ء سے 1998ء تک عالمیت و فضیلت کی تعلیم حاصل کی۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد کچھ مہینے پونا میں مشہور ماہر تعلیم انیس چشتی کی صحبت سے استفادہ حاصل کیا۔
جناب ’’تحریک پیام انسانیت‘‘ فورم کے تحت غیر مسلموں کے درمیان کام کرتے رہے۔ اس طرح دین کی تبلیغ کے لئے مختلف انجمنوں سے وابستہ ہوئے لیکن ابھی تک بھی ان کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا۔ ذریعہ معاش کی فکر میں سرگرداں تھے۔ اسی دوران 31؍دسمبر کو 1999ء کو مشہور عالم دین مولانا سید ابوالحسن ندوی کا انتقال ہوا۔
2006ء میں مرزا صاحب نے Mirza World Book House کے نام سے دوکان شروع کی اور 2006ء سے 2014ء پورے مہاراشٹرا میں ان کا کاروبار پھیلنے لگا جو آج تک جاری ہے اور کتابوں کی فروخت کے سلسلے میں انہوں نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ پورے مہاراشٹرا میں انہوں نے کتابوں کی فروخت کے لئے دینی مدرسوں میں دینی اجتماعات اور مشاعرہ کرواتے۔ اورنگ آباد کی نامور شخصیات کو مدعو کرتے دینی اور عصری تعلیم کی درسگاہوں تک پہنچے والدین اور بچوں میں اردو کتابوں کی مطالعہ کے لئے راغب کرتے۔ بچوں میں اردو کے لئے جوش اور جذبہ پیدا کرنے کے لئے تقریری و تحریری مقابلے منعقد کرتے اور ان میں انعامات تقسیم کرتے، بچوں میں اردو کی جانب رغبت پیدا کرنے کے لئے انہوں نے ایک انوکھا طریقہ روشناس کروایا۔
مرزا صاحب بہ نفس نفیس ہر مدرسہ اور دینی درسگاہ جانے اور بچوں میں گلک یا غلہ Piggy Box جس میں بچے پیسے جمع کرتے ہیں تقسیم کرتے اور انہیں ترغیب دلاتے اور کہتے کہ آپ کے والدین جو بھی پیسے آپ کو دیتے ہیں وہ پیسے اس غلہ میں جمع کریں اور مہینے کے ختم تک جو پیسے جمع ہوں ، اس سے کتابیں خریدیں۔ اس سے آپ کے دل میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگا۔ بقول مرزا صاحب کے چاہے بچے ہوں یا بڑے اگر انہیں کتابیں مفت میں ملیں تو وہ پڑھی نہیں جاتی اور شیلف کی زینت بنائی جاتی ہیں اور جو کتابیں پیسوں سے خریدی جاتی ہے۔ تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اس کی حفاظت بھی کی جاتی ہے اور اس کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس طرح پورے اورنگ آباد شہر میں مرزا صاحب نے تقریباً40,000 غلہ گلک یا Piggy Box مفت تقسیم کئے ،جس کی وجہ سے اورنگ آباد کے بچوں میں پیسے جمع کرکے کتابوں کو خریدنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس طرح بچے اور بڑوں میں اردو کتابوں کو خرید کر پڑھنے کا جوش اور جذبہ پیدا ہوا۔ مرزا صاحب کے اس کام سے متاثر ہوکر NCPUL نے مرزا صاحب کو دلی میں بلایا اور انہیں NCPUL کی جانب سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’بچوں کی دنیا‘‘ کو فروخت کرنے کے لئے کہا۔ سنہ 2014ء میں صرف 6 ماہ میں مرزا صاحب نے 7 لاکھ شمارے فروخت کئے جو ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔
اپریل 2019ء میں شاہین ایجوکیشن سوسائٹی کی جانب سے یوم اردو کا پروگرام بیدر میں منعقد کیا گیا تھا۔ شاہین سوسائٹی کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر نے حیدرآباد سے اس ناچیز کے علاوہ ممتاز ادیب ڈاکٹر آنند راج ورما، محترمہ پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ، محترم ضیاء الدین نیر اور ممتاز عالمی سیاح عظیم بخش صاحب کو مدعو کیا تھا۔اُس موقع پر …
مرزا عبدالقیوم صاحب کو Life time achievement award اردو کیلئے مرزا صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے دیا گیا تھا۔ اس جلسہ میں ناچیز کی ملاقات مرزا صاحب سے ہوئی۔ اس کے بعد علیک سلیک کا سلسلہ جاری رہا۔ جب بھی حیدرآباد تشریف لاتے ہیں ملاقات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان کے اردو کی ترقی و ترویج کے لئے ان کے کام سے متاثر ہوکر میں نے کہا تھا میں آپ کاحیدرآباد شہر کے اُردو قارئین میں تعارف کرواؤنگا۔پروفیسر مجید بیدار صاحب ایک عرصہ تک شہر اورنگ آباد میں درس و تدریس کے سلسلے میں ملازمت کرتے رہے اور مرزا صاحب بھی انہی کے شاگرد رشید ہی رہے ہیں۔ پروفیسر مجید بیدار صاحب سے اکثر میری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ہفتہ دو ہفتہ میں بیدار صاحب غریب خانہ پر تشریف لاکر اس ناچیز کی عزت افزائی فرماتے ہیں۔ ایک ملاقات میں ، میں نے مرزا صاحب کے کام کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ وہ تو میرا شاگرد ہے۔
چنانچہ تلنگانہ اردو اکاڈمی نے یہ طئے کیا کہ اردو اکاڈمی کی جانب سے ماہنامہ رسالہ ’’روشن ستارے ‘‘کے نام سے ڈاکٹر سردار سلیم صاحب کی ادارت میں شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر کام بھی شروع کردیا گیا ہے۔ اس ناچیز کا یہ مشورہ ہے کہ اردو اکیڈمی کے ذمہ داران مرزا عبدالقیوم ندوی صاحب کی خدمات سے استفادہ کریں۔