محسنہ اُمت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ

   

السید محمد بن علوی المالکی الحسنی ؒ مولانا حافظ حنیف قادری نظامی
حضرت سیدتنا خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضور اکرم ﷺ کی صحبت بافیض اور زوجہ ہونے کا شرف ملا ۔ حضور ﷺ کے اعلان نبوت پر آپؓ ہی نے سب سے پہلے نبوت کی گواہی دی ، تبلیغ دین و اسلام میں حضور ﷺ کی تائید کی گویا آپ رسول خدا کی وزیر اور مددگار و ناصری بنی رہیں۔ آپؓ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے خدیجۃ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعُزّٰی بن قصی۔ والد سے آپؓ کا نسب حضرت قصی پر پیارے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جدکریم سے جاملتا ہے ۔ آپؓ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ بن اصم ہے جو عامر بن لُوی بن غالب کی اولاد سے ہیں آپؓ کا نسب کتنا ہی پاک ہے جو محبوب نسبوں میں زیادہ بزرگ ہے ۔
حضورِ اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت سے پندرہ سال پہلے سیدتناخدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت ہوئی ۔ آپؓ حسن و جمال ، عقل و فہم ، فضل و کمال میں مکمل اور تمام اُمور میں دوراندیش حق پرست ہوئیں۔ صاحبہ ثروت و مالدار ہونے کے باوجود ناز و نعمت کی زندگی اور خادموں کی ضرورت سے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بے نیاز کردیا ۔ چونکہ آپؓ مال و زور والی خاتون ہیں اس لئے آدمیوں سے اُجرت پر کام لیتیں اور کسی کو حلال تجارت کے لئے دوسرے ملکوں کو بھیج دیتیں تو کسی کے ساتھ مضاربت (Partnership) کی تجارت فرماتیں ۔ اس دورِ جاہلت میں آپ ؓکے پسندیدہ ، پاک و بہترین اخلاق بلند مقام ، اونچا مرتبہ اور مضبوط شہرت قوم میں مشہور ہوگئے ۔ آپ ؓگویا قیمتی موتی ، لاجواب یاقوت اور ایسا فیض رساں درخت ہیں جس کی شاخیں پھل دار اور جڑیں مضبوط ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے سیدہ طاہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دنیا کی شرافت اور آخرت کی عزت دونوں سے سرفرازی بخشنا چاہا اور تمام عورتوں پر فضیلت اور سعادت ابدی و شرف سے نوازنا چاہا تو آپؓ کو حضور اکرم ﷺ کی زوجۂ مبارکہ بنادیا ۔ آپ کے منجملہ فضائل و کمالات میں یہ بھی ہے کہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ سلام بھیجا ۔ آپ نے عرض کیا اے نبی یہ خدیجہ آپ کے پاس سالن کا برتن لارہی ہیں جب وہ تشریف لائیں تو ان کے رب کا اور میرا سلام فرمائیے ۔ جب حضورؐ نے سلام پہنچایا تو حضرت خدیجہؓ نے عرض کیا اﷲ تعالیٰ خود سلام ہے اسی سے سلامتی ہے اور جبرئیل پر بھی سلام ۔