محسن انسانیت ﷺکی عید

   

محمد الیاس ندوی بھٹکلی
عید الفطر کی شب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہلال عید دیکھا اور یہ دعاء پڑھی ’’اللھم اھلہ علینا بالامن والایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اللہ‘‘۔ اعتکاف کے اختتام اور نماز مغرب ادا کرنے کے بعد آپ گھر تشریف لے گئے اور تمام ازواج مطہرات سے ملاقات کے بعد اپنی قیامگاہ پر واپس تشریف لاکر نماز عشاء ادا کی اور صدقہ فطر بھی ادا فرمایا۔ شہر کے بچوں میں آج خوشی و مسرت کا ایک عجیب سماں تھا، لیکن نوجوانوں اور بوڑھوں پر رمضان کی رخصتی پر افسردگی اور ملال کے آثار کچھ زیادہ ہی نظر آرہے تھے، جن کی اکثریت اختتام رمضان اور آمد عید کے اعلان کے باوجود مسجد ہی میں رات دیر گئے تک موجود تھی اور معمول سے کچھ زیادہ ہی خدا کو یاد کیا جا رہا تھا۔
تاریک شب ہے اور نیلگوں آسمان، رات کا نصف حصہ گزر چکا ہے اور آخری تہائی رات شروع ہونے والی ہے۔ طلوع صبح صادق میں ابھی بہت دیر ہے۔ طیبہ کی فضاؤں میں چلنے والی ہواؤں کا اثر نہ صرف کمروں، بلکہ بستروں تک پہنچ رہا ہے۔ شہر اور آس پاس کے اکثر بندگان خدا ابھی محو خواب ہیں اور کمبل اوڑھے تخیلات کی دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ حسب معمول آج بھی رحمن و رحیم آقا آسمانی دنیا پر تجلی فرماکر اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر اعلان فرما رہا ہے کہ ’’ہے کوئی دعاء کرنے والا، جس کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشوں، یا مانگے تو اس کو عطا کروں، یا اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے تو اس کی مغفرت کروں‘‘۔ درحقیقت فرض نمازوں کے بعد رات کے اسی پہر میں کی جانے والی دعائیں ہی سب سے زیادہ قبولیت سے نوازی جاتی ہیں۔
خالق کائنات کے سب سے محبوب بندے کی زبان پھر اپنے رب کی یاد میں رطب اللسان ہو جاتی ہے اور بلند آواز سے گویا ہوتی ہے ’’اے مالک! تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں، تونے ہی حیات بعد الممات کا ایک ہلکا سا نمونہ دیکھا اور اس وقتی موت کے بعد پھر زندگی عطا کی۔ اے رب العالمین! تیری ہی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے‘‘۔
نماز فجر کے بعد آج مجلس جلد ختم ہو گئی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ عید کا غسل تہجد کے وقت ہی فرما لیا تھا اور نئے کپڑے بھی زیب تن فرما لئے تھے۔ طاق کھجوریں آپ نے نوش فرما لیں اور طلوع آفتاب کے بعد صحابہ کرام کی جماعت کے جلو میں پیدل تکبیر کہتے ہوئے عیدگاہ کی طرف چل پڑے۔