محمد بن سلمان کا یوٹرن ، میں نے خشوگی کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا

,

   

ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ، کیا سعودی عرب کے 30 لاکھ ملازمین پر نظر رکھنا ممکن ہے ؟
خشوگی کا قتل کیوں ہوا؟ نعش کہاں ہے ؟ مقتول سعودی صحافی کی منگیتر کا محمد بن سلمان سے استفسار

نیویارک ۔ 30 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے صرف کچھ روز قبل ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ صحافی جمال خشوگی کے قتل کی ذمہ داری لیتے ہیں تاہم انہوں نے اس الزام کی تردید کی کہ انہوں نے خشوگی کے قتل کا حکم صادر کیا تھا۔ اتوار کے روز نشر کئے گئے ’’60 منٹس‘‘ نامی انٹرویو کے پروگرام میں 34 سالہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ خشوگی کا قتل ایک سفاکانہ عمل تھا لیکن سعودی کا ایک قائد ہونے کے ناطے خشوگی کے قتل کی ذمہ داری ان پر (محمد بن سلمان) عائد ہوتی ہے اور خصوصی طور پر ایک ایسی صورتحال میں جب قتل ایسے افراد کی جانب سے کیا گیا جو سعودی حکومت کے ملازم تھے، یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہوں نے خشوگی کے قتل کا حکم جاری کیا تھا تو انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا اور کہا کہ خشوگی کو قتل کیا جانا ایک فاش غلطی تھی۔ یاد رہیکہ واشنگٹن پوسٹ میں جمال خشوگی اپنے کالموں کے ذریعہ سعودی شاہی خاندان کو اکثر نشانہ بناتے ہوئے تنقید کیا کرتے تھے۔ 2 اکٹوبر 2018ء کو خشوگی استنبول میں واقع سعودی سفارتخانہ کی عمارت میں داخل ہوا تھا لیکن اس کے بعد پھر اسے کسی نے بھی زندہ نہیں دیکھا۔ وہ اپنی ترک نژاد منگیتر سے شادی کا خواہاں تھا جس کیلئے درکار بعض دستاویزات کے حصول کیلئے اس نے سعودی سفارتخانہ کا رخ کیا تھا جبکہ اس کی منگیتر سعودی سفارتخانہ کی عمارت کے باہر خشوگی کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ لوٹ کر نہیں آیا۔ کہا جارہا تھا کہ خشوگی کو قتل کرکے اس کی نعش کو بھی ضائع کردیا گیا کیونکہ قتل کے ایک سال بعد بھی خشوگی کی نعش نہیں ملی ہے جبکہ سعودی عرب نے اس سلسلہ میں 11 افراد پر الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ کا آغاز کردیا ہے جو خفیہ طور پر چلایا جارہا ہے جبکہ اب تک خشوگی قتل معاملہ میں کسی ملزم پر فردجرم عائد نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی سزاء کا تعین کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہیکہ خشوگی کے قتل کیلئے سعودی عرب ذمہ دار ہے اور اس میں ولیعہد محمد بن سلمان کے ممکنہ رول کی تحقیقات کی جانی چاہئے۔ واشنگٹن میں کانگریس نے واضح طور پر کہا ہیکہ اس کی دانست میں خشوگی کے قتل کیلئے محمد بن سلمان ذمہ دار ہیں جبکہ سعودی عرب ابتداء سے ہی اس کی تردید کرتا آرہا ہے۔ ’’60 منٹس‘‘ سے بات کرتے ہوئے سعودی ولیعہد نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ولیعہد ہونے کے ناطے سعودی حکومت کیلئے کام کرنے والے 30 لاکھ افراد روزانہ کیا کرتے ہیں، اس کا بھی مجھے علم ہونا چاہئے۔ کیا یہ ممکن ہیکہ اتنی بڑی تعداد میں کام کرنے والے اپنی روزمرہ کی کارکردگیوں کی رپورٹ سعودی حکومت میں دوسرے نمبر کے سب سے زیادہ بااختیار شخص (محمد بن سلمان) کو روانہ کریں؟ خشوگی کی منگیتر نے بھی جمعرات کے روز ایسوسی ایٹیڈ پریس سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ خشوگی کا قتل کسی فرد واحد سے منسلک نہیں ہے۔ وہ صرف اس بات کی خواہاں ہیکہ محمد بن سلمان اس سے یہ کہہ دیں کہ جمال خشوگی کا قتل کیوں کیا گیا؟ اس کی نعش کہاں ہے؟ اور اس کے قتل کی کیا وجوہات تھیں؟۔