محمد بن سلمان کے عروج کی ایسی داستان جس کے بارے میں آپ ضرور جاننا چاہیں گے

,

   

سعودی عرب کے شہزادے اور ولی عہد محمد بن سلمان منگل کی شام اپنے دو روزہ دورے پر ہندوستان پہنچے ہیں۔ یہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے ائیرپورٹ پہنچ کر ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ شہزادہ سلمان کے جہاز سے اترتے ہی وزیر اعظم مودی نے انہیں گلے لگا لیا۔ اس سے پہلے شہزادہ محمد بن سلمان اپنے دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تھے۔ آئیے اب ہم یہاں اس طاقتور شہزادے کے عروج کی ایسی داستان کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جس کے بارے میں آپ ضرور جاننا چاہیں گے۔

سال 2015 میں اپنے والد سلمان بن عبدالعزیز کے سعودی حکمراں بننے سے پہلے محمد بن سلمان کو مملکت سے باہر بہت ہی کم لوگ جانتے رہے ہوں گے۔ لیکن اب اس 33 سالہ شہزادہ کو ہی مملکت کا اصلی حکمراں سمجھا جاتا ہے۔ ان کا نام انتہائی کم مدت میں مملکت سمیت دنیا بھر کے چند طاقتور ترین افراد میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ مغربی رہنماوں نے جہاں ایک طرف ان کے چند اصلاحاتی اقدامات کی ستائش کی جس میں سعودی خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کو ہٹانے اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے ان کے ہمہ جہتی اقدامات شامل ہیں تو وہیں، دوسری طرف، انہیں اپنے چند اقدامات کے لئے مغربی رہنماوں کی تیکھی تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے جن میں پڑوسی ملک یمن کے ساتھ جنگ چھیڑ دینے، قطر کے ساتھ رشتے منقطع کر لینے اور مخالف آوازوں کو دبانے کے لئے مخالفین کے خلاف کریک ڈاون وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح، اکتوبر 2018 میں ترکی کے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانہ میں سعودی حکومت کے سخت ناقد رہے نامور سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بے رحمانہ قتل واقعہ پر بھی شہزادہ کو چوطرفہ سخت تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

تاہم، ان سب کے درمیان، سعودی عرب کی فوج، خارجہ پالیسی اور معیشت پر اس طاقتور شہزادہ نے اب اپنی مضبوط پکڑ بنا لی ہے۔ ساتھ ہی سال 2017 میں بدعنوانی کے خلاف شروع کی جانے والی مہم کے یہ روح رواں بھی رہے ہیں۔ اس مہم کے تحت شاہی خاندان کے کئی شہزادوں کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا اور انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

اکتیس اگست 1985 کو پیدا ہونے والے محمد بن سلمان خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی تیسری اہلیہ فہدہ بنت فلاح بن سلطان کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت اپنے والد کے ساتھ گزارا ہے۔ دارالحکومت ریاض کی گنگ سعود یونیورسیٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے متعدد سرکاری اداروں میں  اپنی خدمات انجام دیں۔ 2009 میں وہ اپنے والد کے خصوصی مشیر بنائے گئے۔ ان کے والد اس وقت ریاض کے گورنر ہوا کرتے تھے۔

تاہم، محمد بن سلمان کےعروج کی داستان 2013 میں اس وقت شروع ہوئی جب انہیں دیوان شاہی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ دیوان شاہی کے سربراہ کو وزیر کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اس سے پہلے سال 2012 میں نائف بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد ان کے والد سلمان کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔ پھر جنوری 2015 میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد 79 سال کی عمر میں سلمان بن عبدالعزیز نے مملکت کے تخت وتاج کو سنبھالا۔ نئے شاہ سلمان نے تخت وتاج سنبھالنے کے بعد دو ایسے فیصلے کئے جس سے مبصرین حیرت میں پڑ گئے۔ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو وزیر دفاع بنا دیا اور  بھتیجے محمد بن نائف کو نائب ولی عہد بنا دیا۔ محمد بن نائف کے نائب ولی عہد بننے کے بعد ان ہی کو مملکت کے تخت وتاج کا آئندہ جانشین سمجھا جانے لگا تھا۔ لیکن بعد میں حالات نے کروٹ لی اور یہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی انہیں معزول کر دیا گیا۔

جنوری 2015 میں جب محمد بن سلمان وزیر دفاع بنائے گئے تو پہلی مرتبہ دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخیوں کا وہ حصہ بنے۔ وزیر دفاع کی حیثیت سے وہ سعودی عرب کے حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ کے اہم ترین فریق ہیں، جبکہ کہا جاتا ہے کہ قطر کو الگ تھلگ کرنے میں بھی ان کا کردار اہمیت رکھتا ہے۔ وزیر دفاع کے رول سے ہٹ کر بھی ان کے پاس سعودی عرب کی ریاستی آئل کمپنی سعودی ارامکو کا کنٹرول ہے۔

اپریل 2015 میں شاہ سلمان نے جانشینی کو لے کر  ایک بار پھر بڑا فیصلہ کیا۔ انہوں نے محمد بن نائف کو ولی عہد اور اپنے بیٹے محمد کو نائب ولی عہد، نائب وزیر اعظم اور معاشی اور ترقیاتی امور کی کونسل کا صدر بنا دیا۔ اس کے ایک سال بعد یعنی 2016 میں محمد بن سلمان نے طویل المیعاد اقتصادی منصوبہ ویژن 2030 کا اعلان کیا جس کا مقصد سعودی عرب کی معیشت کے تیل پر انحصار کو ختم کرنا تھا۔ اس منصوبہ کے تحت انہوں نے 500 ارب ڈالرز کا شہر نیوم بحیرہ احمر کے کنارے تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ محمد بن سلمان اس وقت بھی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنے جب انہوں نے بیان دیا کہ سعودی عرب میں اعتدال پسند اسلام کو رائج کرنے کی ضرورت ہے۔

جون 2017 میں شاہ سلمان نے ایک اور فیصلہ کیا جس نے سب کو چونکا دیا۔ انہوں نے ولی عہد اور وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا اور ان کی جگہ شہزادہ محمد بن سلمان ولی عہد بنا دیئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی سیکورٹی فورسیز پر دیوان شاہی کا کنٹرول ہو گیا اور محمد بن نائف کو مبینہ طور پر نظربند کر دیا گیا۔

اس طرح شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی سیکیورٹی معاملات کے تین ستونوں پر موثر کنٹرول حاصل کرلیا یعنی وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور نیشنل گارڈز۔ محمد بن سلمان نے اس سے قبل امریکی انتظامیہ سے بھی اچھے رشتے استوار کر رکھے تھے اور سابق صدر براک اوبامہ نے انہیں اسمارٹ لیڈر قرار دیا تھا۔ اسی طرح ان کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے بھی گہرے اور مضبوط رشتے بنے ہوئے ہیں۔

جب شاہ سلمان کا انتقال ہو گا تو محمد بن سلمان ایسے شاہ کی شکل میں نظر آئیں گے جو جوان ہو گا اور امکان ہے کہ یہ جوان شاہ کئی دہائیوں تک سعودی تخت و تاج پر برقرار رہے۔