محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کے روشن پہلو

   

مولانا سید اسحاق محی الدین قادری نظامی
نام: محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ۔ حضور ؐنے فرمایا: میرے بہت سے نام ہیں۔ میں محمد، احمد، ماحی، حاشر، عاقب ہوں۔
نسب : آپ ﷺکا نسب سب سے پاکیزہ اور اعلی ہے۔ حضور ﷺنے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے اسماعیل علیہ السلام کو، پھر نبی اسماعیل سے کنانہ، نبی کنانہ سے قریش، قریش سے بنو ہاشم، بنو ہاشم سے مجھے منتخب فرمایا۔ (مسلم شریف)
ماہ ربیع الاوال کے ۱۲تاریخ بروز پیر صبح صادق کے وقت آپ ﷺکی پیدائش ہوئی۔ پیدائش کے بعد آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا، پھر حضرت ثویبہؓ نے پھر حضرت حلیمہؓ نے۔ حضور علیہ السلام کے چھ سال کی عمر میں جب شق صدر ہوا حضرت حلیمہ گھبراجاتی ہے اور خوف کے مارے حضور علیہ السلام کو ان کے والدہ کے حوالہ کردیتی ہیں۔ جب آپ ﷺ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو اپنی والدہ حضرت آمنہؓ کے ساتھ اپنی ننھیال مدینہ تشریف لے گئے۔ واپسی میں مقام ابواء میں حضرت آمنہؓ اچانک بیمار ہوتی ہیں اور آپ ﷺ سے کہتی ہیں کہ میں نے ایسی ذات کو جنم دیا ہے جن کا ذکر ہمیشہ باقی رہے گا اور انتقال کرجاتی ہیں۔ اس کے بعد حضرت امام ایمن آپ ﷺ کی پرورش کی ذمہ داری لی اور آپ ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کفالت فرمائی۔ ۸سال کی عمر میں آپ ﷺ کے دادا کا بھی وصال ہوگیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے چچا حضرت ابو طالبؓ نے کفالت قبول فرمائی۔ اعلان نبوت کے بعد حضرت ابو طالب نے آپ ﷺ کی خوب مدد فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہر قسم کی برائی سے محفوظ رکھا اور اعلی اخلاق پر فائز فرمایا۔ آپ ﷺ بچپن ہی سے صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ ﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے حجر اسود کو نصب کرنے میں تنازعہ ہوا تو آپ ﷺ نے ان کا بہتر فیصلہ فرمایا اور سارے سردار آپ ﷺ کے اس فیصلے پر راضی ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ امین ہیں ہم سب آپ ﷺ سے راضی ہیں۔
نبوت و رسالت: ۱۷رمضان المبارک بروز پیر غار حراء میں ۴۰سال کی عمر میں آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ وحی اترنے کی وجہ سے آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا، سخت سردیوں میں بھی پسینے سے شرابور ہوجاتے، آپ ﷺ اپنے لیے کچھ اندیشہ محسوس کیے تو ام المومنین سیدتنا حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو تسلی دی اور کہا ’’اللہ کی قسم! وہ کبھی آپؐ کو رسوا نہیں کرے گا، آپؐ صلہ رحمتی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور مصیبت پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ پہلی وحی کے بعد کچھ مدت تک کے لئے وحی کا سلسلہ بند ہوگیا جس پر آپ ﷺ غمگین ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دوسری وحی سورہ مدثر کی ابتدائی آیتیں نازل فرمائی۔ ان آیتوں کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دینا شروع کردیا۔ جس پر مکہ والے آپ ﷺ کے دشمن ہوگئے اور ایذاء، تکلیف پہنچانا شروع کردیئے۔ آپ ﷺ کے چچا حضرت ابو طالبؓ ڈھال کے مانند آپ کی مدد کی۔ ابتدائی تین سال تک خفیہ طور پر دعوت کا کام کرتے رہے اور جب علانیہ دعوت کا حکم آیا تو آپ ﷺ نے علی الاعلان دعوت دینا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی (اپنی قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ (القران) تو آپ ﷺ نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر آواز لگائی جس پر آپ ﷺ کے خاندان والے اکٹھا ہوگئے۔ آپ ﷺ نے علی الاعلان دعوت دی ’’میں تم لوگوں کو سخت عذاب سے ڈراتا ہوں‘‘ ابولہب نے کہا تیری بربادی ہو کیا تو نے اسی لیے ہم سب کو جمع کیا تھا۔
آپ ﷺ نے ایام حج میں مدینہ کے چھ لوگوں کو دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ ان کے دعوت سے مدینہ میں کافی لوگ مسلمان ہوئے جس کے بعد خفیہ طور پر بیعت عقبیٰ پیش آئی اور جب مدینہ میں اسلام کا بول بالا ہوا تو آپؐ نے اپنے صحابہ کرام کو مدینہ ہجرت کا حکم دے دیا۔
ہجرت مدینہ: مدینہ کی زمین اسلام کی اشاعت کے لئے ہموار ہوگئی تھی چنانچہ اللہ کے حکم سے آپ ﷺ مدینہ کا رخ کیے۔ آپ ﷺ کے ساتھ امیر المؤمنین سیدنا حضرت ابوبکرؓ بھی تھے۔ دشمنوں نے تعاقب کیا جس پر آپ ﷺ نے غارثور میں تین دن قیام فرمایاپھر مسلسل سفر کے بعد مدینہ پہنچے جہاں آپ ﷺ کا زبردست استقبال کیا گیا۔ اسی زمین میں آپ ﷺ نے اپنی مسجد اور گھر تعمیر فرمایا۔
غزوات: قیام مدینہ کے درمیان آپ ﷺ اشاعت دین میں مکمل مصروف ہوگئے۔ گاہے بگاہے رکاوٹیں آنے لگی تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے جنگیں لڑی گئیں۔ جملہ ستائیس (۲۷) غزوات واقع ہوئیں۔ غزوۂ بدر ۱۷رمضان ۲ہجری میں پیش آیا جس میں مسلمانوں کو واضح فتح حاصل ہوئی۔
آپ ﷺ نے ہجرت کے بعد صرف ایک حج ادا کیا اور چار عمرے کیے۔ آپ ﷺ سب سے زیادہ سخی ، راست باز، نرم مزاج، متواضع، حیا دار، بردبار، سب سے زیادہ دلیر اور بہادر تھے۔ غیظ و غضب سے دور تھے، کبھی بھی اپنی نفس کے لیے بدلہ نہیں لیتے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں حضور علیہ السلام کی خدمت میں دس (۱۰) سال تک رہا میرے کسی کام پر آپ ﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں نے اگر کوئی کام کیا تو کیوں نہیں کیا؟ ایسے جملے کبھی آپ ﷺ نے نہیں فرمائے۔ البتہ اگر اللہ کی حرمت پامال ہوتی تو اللہ کے لیے آپ ﷺ بدلہ لیتے۔ دسترخوان پر جو کچھ بھی ملتا کھالیتے، کھانوں میں کبھی عیب نہیں نکالتے، مہینوں آپ کے گھر میں آگ نہیں جلتی، مریضوں کی عیادت کرتے، جنازوں میں حاضر ہوتے، فقراء مساکین کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، ہنسی مذاق بھی کبھی کیا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ آپ تمام اخلاق عالیہ کے حسین پیکر تھے۔
11 ہجری ربیع الاول کی 12 تاریخ بروز پیر بوقت چاشت آپ صلی اللہ علیہ و سلم رب حقیقی سے جاملے۔ وصال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک حضرت عائشہؓ کے گود میں تھا۔ غسل و تکفین کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر لوگوں نے باری باری نماز جنازہ ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ظاہراً ترسٹھ (63) سال کی عمر ملی جس میں سے تئیس (23) سال رسالت کے تھے۔ تیرہ سال مکہ اور دس سال مدینہ میں رہے۔ اس ذات مبارکہ اور مقدسہ پر ان گنت رحمتیں، برکتیں، سعادتیں اور درود و سلام نازل ہو۔ آمین