مختار انصاری غریبوں کا مسیحا یا مافیا

   

ایڈوکیٹ عثمان شہید
ملت کے مقدر کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا۔صبح ہوتے ہوتے یہ چراغ گل ہوگیا۔ جس کے ذمہ گھپ اندھیرے میںراستہ بتانا تھا۔وہ چراغِ محفل بھی اندھیروں سے لڑتے لڑتے صبح سویرے ہونے سے قبل سویرے کے کندھے پر سر رکھ کر سوگیا، مختلف سیاسی پارٹیوں کے امیدوار بن کر پانچ مرتبہ انتخابی جنگ جیتنے والا بالاخر موت سے ہار گیا۔ ہر آدمی کے دوست اور دشمن ہوتے ہیں ، مختار کے بھی دشمن بہت تھے، جہاں دوستوں نے اُس کو غریبوں کا مسیحا قرار دیا ، وہاں مخالفین نے اُس کو مافیا کہا، دہشت پسند کہا، قاتل اور خونی کہا، وہ ہمیشہ ایسے حلقہ سے جنگ لڑتا رہا جہاں 80 فیصد ہندو آبادی ہے لیکن ہارنا اُس کے مقدر میںنہ رہا۔ اُس کے حلقہ میں منکروں کی آبادی 80 فیصد تھی وہاں مسائل بھی بہت زیادہ تھے، وہ اُن کوحل کرنے میں مصروف رہا۔ کبھی مسلمانوں اور ہندوئوں میں فرق نہیں کیا۔ اپنے ہندو ووٹروں کے لئے ایک مندر بنائی اور تحفہ میں دے دیا۔ ان کے دکھ درد میں ہمیشہ شرکت کرتے رہے اور ہمیشہ کامیابی اُن کے قدم چومتی رہی۔ مخالفین ہمیشہ سورج پر مٹی اُچھالتے رہے لیکن گرد سے سورج کالا نہیں ہوا۔ وہ آئینہ کی طرح جگمگاتا رہا اور اندھیروں کا دشمن بنا رہا۔ انہوں نے کئی ہندو تہواروں میں حصہ لیا۔ اُن کے دادا پکے کانگریسی تھے، وہ جنگ آزادی کے سپاہی تھے جو کانگریس کے پاس یوپی میں دفتر کے لئے جگہ نہیں تھی تو ان کے دادا نے اپنی کوٹھی مہاتما گاندھی کو دے دی اور کرایہ بھی نہیں لیا۔ اُن کے نانا برگیڈیرمحمد عثمان صاحب ہندوستانی فوج میں اہم عہدہ پر تھے، ہزاروں مرتبہ ان کو پاکستانی فوج میں آنے کا لالچ دیا گیالیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔انہیں پریم ویر چکر بھی دیا گیا۔ ان کے چاچا سابق نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری ہیں۔ مختارانصاری کو جب تک جانا نہ گیا تھا اور قریبی دوست واحباب سے معلومات فراہم نہ ہوئی تھی صرف میڈیا کے ذریعہ ہی اس شخص سے تعارف تھاکہ اب یہ افسوس ہوتا ہے کہ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس دور کا میڈیا جانتے ہوئے بھی سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں کہہ سکتا اورہم یہ جانتے ہوئے بھی اس عظیم شخص سے بدگمان رہے۔ دارالعلوم کی 22 بگہ زمین جسے کسی زمیندار نے دارالعلوم دیوبند کو وقف کیا تھا اُس پر اترپردیش کے کسی مافیا نے قبضہ کرلیا تھا، سب پریشان تھے کہ یہ زمین کیسے واپس لی جائے، مشورہ میں یہ طئے ہوا کہ مختار انصاری بھائی سے مدد لی جائے۔ جس میں مولانا احمد الحسینی، مفتی راشد صاحب، مولانا انوارالرحمن بجنوری وغیرہم نے جیل میں جاکر ملاقات کی اور مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کا ایک رقعہ پیش کیا جس میں اس انداز کی تحریر تھی ’’جب حیدرآباد نظام نے دارالعلوم دیوبند کا چندہ کسی وجہ سے بند کردیا تھا تو تمہارے دادا مرحوم ڈاکٹرمختار انصاری نے کہا تھا کہ اگر پورا ہندوستان چندہ بند کردے تو اکیلا مختار دارالعلوم کو چلائے گا۔ آج اس دادا کے پوتے مختار کی ضرورت دیوبند کو آن پڑی ہے‘‘۔ مختار انصاری نے مدنی صاحب کے خط کو کھولا پڑھا اور سر پر رکھ لیا اور پھر اگلے دو دن بعد دارالعلوم کا قبضہ بحال ہوگیا۔ افسوس کہ ایسے فرد کو مختلف جھوٹے سچے کیسوں میں پھانس کر زندگی مشکل کردی۔ دفعہ 144 لگانے کے باوجود ہزاروں لوگوں کا اس کی میت میں پولیس اور فوج سے ڈرے بغیر شرکت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مختار مافیا نہیں تھا بلکہ مسیحا تھا۔ابھی چند دنوں بعد ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ملک کے حالات کو درہم برہم ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ایک چراغ عصر کے وقت مغرب ہونے سے قبل غروب ہوگیا تو ہزاروں چراغ جل اٹھے ۔ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ مافیا تھا تو میں کہہ رہا ہوں کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔آج دشمنی کی آگ کو بھڑکایا جارہا ہے اور اس کے سہارا الیکشن میں بی جے پی کو کامیابی ملے ایسی کوشش کی جارہی ہے۔جس کا اثر ظاہر ہورہا ہے۔ بی جے پی کی مانگ میں اقتدار کا سندور کچھ برسوں سے لگا ہوا ہے۔ افسوس یہ کہ بی جے پی نے ملک کی ترقی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اُلٹا یہ ہوا کہ ائرلائنس پرائیوٹ سیکٹر کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔ اب ریل کی باری ہے، پھر زمین پر وار ہوگا، پھر بجلی پر بجلی کوخانگیانے کے لئے بل زیر التواء ہے۔ شدید احتجاج کی وجہ سے قانون ابھی تک پاس نہیں ہوسکا۔حالت کا آئینہ یہ بتارہا ہے بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے، مہنگائی آسمان چھورہی ہے۔ مفلسی کا اندھیرا گہرا ہوتا جارہا ہے۔ امیر امیر ہورہا ہے، غریب پستی میں گرتا جارہا ہے۔ دولت مند ملک چھوڑ کر بھاگ رہا ہے ہر کوئی اپنے مستقبل سے لرزہ براندام ہے۔ اس طرح بی جے پی کے سیاسی اقتدار میں ہر شعبہ ہائے حیات میں گراوٹ کے سوا کچھ نہیں ملا۔