مدھیہ پردیش ‘ بی جے پی کے عزائم

   

کم سے کم اتنا تو دکھلایا محبت نے اثر
مجھ سے رشتہ توڑ کر ان کو پشیمانی ہوئی
مدھیہ پردیش ‘ بی جے پی کے عزائم
کرناٹک میں برسر اقتدار اتحاد کی صفوں میںدراڑیں پیدا کرنے اور مخلوط حکومت کو زوال کا شکار کرتے ہوئے خود اقتدار پر قبضہ جمالینے کے بعد بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ اب مدھیہ پردیش میں کانگریس کی کمل ناتھ حکومت کونشانہ بنانے کے اپنے مشن پر عمل شروع کرچکی ہے ۔ گذشتہ سال جب مدھیہ پردیش میں بی جے پی تین معیادوں کے بعد اقتدار سے محروم ہوئی تھی اس کے کچھ ہی ہفتوں کے بعد سے یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ بی جے پی ریاست میں در پردہ ارکان اسمبلی کو لالچ دینے اور انہیں خرید کر کانگریس حکومت کو زوال کا شکار کرنے اور خود اقتدار پر قبضہ جما نے کی سازشیں شروع کرچکی ہے ۔ فوری طور پر مدھیہ پردیش کو چھوڑ کر کرناٹک میں اپنا مشن پورا کیا اور کچھ وقت انتخابات میں مصروف رہنے کے بعد اب مدھیہ پردیش کو نشانہ بنانے کی مہم شروع کردی گئی ہے ۔ ریاست میں کانگریس کے 14 ارکان اسمبلی کو ایک طرح سے یرغمال بنالینے کے الزامات سامنے آئے ہیں ۔ بی جے پی کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت ‘ انہیں لالچ دینا یا پھر انہیں مقدمات میں پھانس کر اپنی صفوں میں شامل کرلینے کی روایت ایک عام بات ہوگئی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد آندھرا پردیش میں تلگودیشم پارٹی کے تین ارکان راجیہ سبھا کو اسی طرح مقدمات سے ڈرا دھمکا کر اپنی صفوں میں شامل کرلیا گیا تھا اور پھر ان کے خلاف مقدمات کو برفدان کی نذر کردیا گیا ۔ اسی طرح کرناٹک میں کانگریس اور جنتادل ایس کے ارکان اسمبلی کو انحراف کیلئے اکسایا گیا ۔ اپنی حکومت قائم کی گئی ۔ ضمنی انتخابات میں تمام باغی امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا اور اپنی حکومت کو مستحکم کرلیا گیا ۔ عوامی سطح پرا خلاقیات اور جمہوری اقدار کی بات کرنے والی بی جے پی کے قول و فعل میں اس معاملہ میں یکسر تضاد ہے ۔ بی جے پی ریاستوں میں اپنی حکومتیں قائم کرنے کیلئے ہر طرح کی اخلاقی روایات کی دھجیاں اڑانے سے گریز نہیں کرتی ۔ حد تو یہ ہے کہ انتہائی اعلی سطح سے یہ مشن شروع کیا جاتا ہے اور پھر عوامی رائے کو یکسر فراموش کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمالیا جاتا ہے ۔
بی جے پی کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں اسے مسلسل شکستیں ہو رہی ہیں۔ ریاستی سطح پر کوئی قیادت نہ ہونے اور مودی یا امیت شاہ کا ریاستی امور پر جادو نہ چل پانے کی وجہ سے اسے شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان کے بعد مہاراشٹرا میںاسے اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ساری طاقت جھونکنے اور نفاق کے ایجنڈہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے باوجود دہلی میں بمشکل تمام محض آٹھ نشستوں پر سمٹ جانے کے بعد بی جے پی کی ریاستی یونٹوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ ریاستی سطح کے قائدین کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ عوام اب اس کے جھانسے میں نہیں آ رہے ہیں اور وہ مسائل کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے پاس کوئی ترقیاتی ایجنڈہ یا منصوبہ نہیں ہے ۔ وہ اپنا کوئی کارنامہ عوام کے سامنے پیش کرنے کے موقف میںنہیں ہیں۔ وہ صرف نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہے ۔ قومی سطح پر اسے اس طرح کے ایجنڈہ سے کچھ مدد ضرور ملی ہے لیکن ریاستی سطح پر عوام اپنے مقامی مسائل کو اہمیت دینے لگے ہیں اور بی جے پی کی ریاستی حکومتیں کارکردگی کے معاملہ میں صفر کی ہوتی جا رہی ہیں۔ بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے بھی عوامی اور فلاحی کاموں کی بجائے نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہی ہوا دینا شروع کیا تھا جس کا خمیازہ انتخابات میں عوام کی رائے کی صورت میں اسے مسلسل بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
جمہوریت میں عوام کی رائے کی اور عوام کے ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے ۔ عوام کے ووٹوں سے حکومتیں اقتدار سے بیدخل ہوتی ہیں اور نئی حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ لیکن بی جے پی مرکز میں اپنے اقتدار اور مرکزی ایجنسیوں پر اپنے کنٹرول کا بیجا استعمال کرتے ہوئے جمہوری اقدار کو مسلسل پامال کر رہی ہے ۔ گوا میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقلیت میں ہونے کے باوجود کانگریس اور دوسری جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے ذریعہ حکومت تشکیل دیدی گئی ۔ کرناٹک میں توڑ جوڑ کی سیاست سے حکومت قائم کرلی گئی اور اب یہی کوشش مدھیہ پردیش میں شروع کردی گئی ہے ۔ فی الحال تو اسے اس کوشش میں کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی ہے لیکن اس کوشش سے بی جے پی کے عزائم واضح ہوگئے ہیں اور نہ صرف کانگریس بلکہ دوسری تمام سیاسی جماعتوں کو اس روایت کو ختم کرنے کمربستہ ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔