مذہبی جنون ترقی کی راہ میں رکاوٹ

   

دین اسلام حق ہے، حق کی دعوت دینا، راہ راست کی طرف بلانا اور انسانیت کو آخرت کے دائمی عذاب سے بچانے کی فکر کرنا اہل اسلام کی ذمہ داری ہے، لیکن اس کے لئے پیار و محبت اور حکمت و موعظت کے اسلوب اختیار کرنا چاہئے اور اگر اختلافی صورت ہو تو نہایت عمدہ پیرائے میں دفاع کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے انداز میں کیجئے جو نہایت بہتر ہو۔ بے شک آپ کا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے، جو اس کی راہ سے بھٹک چکے ہیں اور وہ راہ راست پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے‘‘۔ (سورۃ النمل۔۵۲۱)
اسلام قبول کرنے کے لئے کسی کو مجبور کرنے کی قطعاً اجازت نہیں اور سارے لوگ مسلمان ہو جائیں یہ بھی ضروری نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ’’اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مؤمن ہو جائیں‘‘ (سورہ یونس۔۹۹)
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، بے شک ہدایت، گمراہی سے واضح طورپر ممتاز ہوچکی ہے، سو جو کوئی معبودان باطل کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے مضبوط حلقہ تھام لیا ہے، جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں اور اللہ خوب سننے والا ہے‘‘۔
(سورۃ البقرہ۔۶۵۲)
عقیدۂ توحید اسلام کا طرۂ امتیاز ہے، خدا کی ذات تو کجا اسماء و صفات اور اختیارات و تصرفات میں بھی کسی کو شریک کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔ اس کے باوصف اگر کوئی معبودان باطل کی پرستش کرتا ہے، شجر و حجر، دیوی اور دیوتاؤں کو پوجتا ہے تو وہ اس کا اختیاری عمل ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے‘‘ (سورۃ الکافرون۔۶) کفر و شرک کرنے والوں سے دنیا میں مواخذہ نہیں ہوگا، وہ آخرت میں نقصان اُٹھانے والے ہوں گے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اور آپ فرمادیجئے کہ حق تمہارے رب کی طرف سے (آچکا) ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، یقیناً ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار رکھی ہے، جس کی دیواریں انھیں گھیر لیں گی اور اگر وہ (پیاس و تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائیگی، جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا، جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا بُرا مشروب ہے اور کتنی بری آرامگاہ ہے‘‘ (سورۃ الکہف۔۹۲) دیگر مذاہب اور ان کے معبودانِ باطل کو برا بھلا کہنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا ’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنھیں یہ (مشرک) اللہ کے سواء پوجتے ہیں، پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔ اس طرح ہم نے ہر فرقہ کے لئے ان کا عمل (ان کی آنکھوں میں) مزین کردیا ہے، پھر سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے اور وہ انھیں ان کے اعمال سے متعلق آگاہ فرما دے گا جو وہ کرتے تھے‘‘۔ (سورۃ الانعام۔۸۰۱)
اسلام میں نہ معبودانِ باطل کو سخت کہنے کی اجازت ہے اور نہ ان کی پرستش کرنے والے یعنی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ امتیاز یا جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ ارشاد فرمایا ’’اللہ تمھیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور ان سے عدل و انصاف کا برتاؤ (یاد رکھو) یقیناً اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘۔
(سورۃ الممتحنہ۔۸)
عدل و انصاف، امانت و صداقت، انسان دوستی، احترام آدمیت، عقائد و عبادات کے قطع نظر معاملات، لین دین،حسن سلوک، کاروبار، بھائی چارہ، برادرانہ تعلقات، حسن اخلاق، تیمارداری، خیر خواہی، اچھائی کی تعلیم، برائی سے اجتناب، اقربا پروری اور دیگر امور میں مسلم اور غیر مسلم دونوں برابر ہیں اور یہی امور بہترین اور مہذب معاشرہ کی تشکیل کے عناصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور تم ایک دوسرے کے مال کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھلایا کرو اور نہ مال کو (بطور رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو، تاکہ تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ کے ذریعہ کھاسکو، حالانکہ تم جانتے ہو (کہ وہ گناہ ہے)‘‘ (سورۃ البقرہ۔۸۸۱) ’’اور تم حق کو باطل سے مت ملایا کرو اور نہ جان بوجھ کر حق کو چھپاؤ‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۲۴)
غیر مسلموں کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار رکھنے سے متعلق بطور مثال چند قرآنی آیات کا ذکر کیا گیا۔ تعلیماتِ اسلامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی ملک میں دیگر مذاہب والوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ہم میں بعض افراد ایسے ہیں، جو اسلامی تہذیب و تشخص کے متاثر ہونے کے اندیشے سے غیر مسلموں کے ساتھ راہ و رسم تو دُور کی بات ہے، بات چیت کرنے سے بھی کتراتے ہیں اور بعض ایسے جدت پسند ہیں، جو غیروں کی مشابہت میں اپنی شناخت تک کھوچکے ہیں، یعنی اپنی خبط خیالی میں مدہوش ہیں۔ہمیں اپنی تہذیب و تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی، قانون کی بالادستی، ظلم و زیادتی اور فتنہ و شرانگیزی کے سدباب کے لئے سچائی، آزادی، ترقی اور مشترکہ انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ ملک اور ریاست کو درپیش مسائل کے حل کے لئے مل جل کر محنت کرنی چاہئے۔ ہر دو جانب سے مذہبی جنون، فرقہ وارانہ تعصب اور معاشرتی فسادات کی بیخ کنی ناگزیر ہے، جس کے بغیر ہماری اور ہمارے ملک کی ترقی ممکن نہیں۔