مذہب کی ضرورت اوردین اسلام کی جامعیت

   

’’مذہب ‘‘ کو انگریزی زبان میں Religion کہتے ہیں ، جو لاطینی زبان سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم مخصوص عقیدے اور مخصوص مراسم عبادت کا ایک نظام ہے ۔ ماہرین نے ’’مذہب‘‘ کی مختلف الفاظ میں تعریفیں نقل کی ہیں۔
کانٹ (Kant)کہتا ہے کہ ’’ ہر فریضہ کو خدائی حکم سمجھنا یہ مذہب ہے ‘‘ ۔ شوپنہار (Schopenhawer) لکھا ہے کہ ’’مذہب موت کے تصور سے وابستہ ہے ‘‘ ۔ سر ای بی ٹیلر (Taylor) نے مذہب کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے : Religion Means the belief in Spritual beings یعنی مذہب روحانی مخلوقات پر ایمان لانے کا نام ہے ۔ (انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا)
برونائٹ ہیڈ لکھتا ہے : ’’مذہب اعتقاد کی اُس قوت کا نام ہے جس سے انسان کا باطن پاک ہوجاتا ہے یعنی مذہب ان صداقتوں کے مجموعہ کا نام ہے ، جس میں یہ قوت ہوتی ہے کہ وہ انسان اور انسانی اخلاق میں انقلاب پیدا کردیتی ہے بشرطیکہ انھیں خلوص کے ساتھ قبول کیا جائے اور بصیرت کے ساتھ سمجھا جائے ۔
مشہور عالم نفسیات پروفیسر جیمز ایچ لیوبا Jams H.Leuba نے اپنی ایک تصنیف میں مذہب کی مختلف تعریفات نقل کی ہیں جو مذہب کے کسی نہ کسی ضروری چیز پر حاوی ہیں۔ ان تعریفات میں سے چند تعریفیں نقل کی جاتی ہیں۔
پہلی تعریف تو مذہب کی یہ ہے : ’’مذہب نام ہے اُس احساس کا جو کسی مقدس ، بالاتر اور ان دیکھی ذات کا وجود انسان کے قلب و دماغ میں پیدا کرتا ہے ‘‘۔
دوسری تعریف یہ ہے ’’مذہب نام ہے ایک ازلی اور ابدی حقیقت پر ایمان لانے کا جس کی حیثیت اور ارادہ انسانی منشا اور ارادے سے بالاتر ہے اور جس کا تعلق انسان کی زندگی کے ساتھ بہت گہرا ہے ۔
تیسری تعریف یہ ہے کہ : ’’مذہب نام ہے ان مافوق الانسانی قوتوں کی رضا جوئی کا جو انسانی زندگی پر حکمراں ہیں۔
چوتھی تعریف یہ ہے کہ : ’’ مذہب ایک روحانی اور نفسی حاسہ ہے جس کی بنیاد یہ عقیدہ ہے انسان اور کائنات میں باہمدگر آہنگی پائی جاتی ہے ۔
پانچویں تعریف یہ ہے کہ : ’’مذہب نام ہے اُس جستجو کا جو انسان ، زندگی کے حقیقی مقاصد کے ادراک کے لئے کرتا ہے ۔
جب مذکورہ بالا تعریفات پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کوئی تعریف بھی دین کے جامع تصور پر حاوی نہیں بلکہ دین کے کسی ایک پہلو کو ظاہر کرتی ہے تاہم قرآن مجید نے جو دین اور مذہب کا تصور دیا ہے وہ ایک کامل اور جامع دستورِ حیات ہے ۔
قرآن مجید کی رو سے ’’مذہب ان ہدایات اور احکامات کا نام ہے جو وقتاً فوقتاً اﷲ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیھم السلام کے ذریعہ اپنے بندوں کے لئے بھیجے جن پر گامزن ہوکر انسان اس دنیا اور آخرت کی زندگی سنوارسکتا ہے ۔
گویا مذہب انسان کی روح اور جسم کے تمام تر اقتضاء ات کو پورا کرنے کا نام ہے ۔ قرآن مجید میں آتا ہے : رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الـدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِى الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمکو دوزخ کے عذاب سے بچا ۔ (سورۃ البقرہ:۲۰۱)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مذہب کا تعلق جسم اور روح دونوں سے ہے ۔ اسلام میں دین اور دنیا کی دوئی کا تصور باطل ہے ۔
قرآن مجید نے اس مفہوم کو دین ، ملت ، سبیل ، شریعت ، ہدایت ، صراط اور طریق کے الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ یہ الفاظ راستہ ، روش ، رہنمائی کے معنوں میں مشترک ہیں۔
مذہب فطری
ضرورت ہے
مذہب کے فطری ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہر قوم اور ہر نسل میں مذہب مشترک امر ہے جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ مذہب ایک فطری چیز ہے کیونکہ تمام دنیا کا کسی موہم اور باطل چیز پر جمع ہوجانا عندالعقل ممتنع ہے ۔ البتہ نفس ِحقیقت کے اظہار و بیان میں کوئی صواب پر ہے تو کوئی خطا پر ۔
پروفیسر سباتیز (Sabates) ’’میں کیوں مذہب کا پابند ہوں ؟ ‘‘ کے جواب میں لکھتا ہے کہ میں اس لئے پابند ہوں کہ اس کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پابند مذہب ہونا میری ذاتیات میں ہے ۔ لوگ کہیں گے یہ وراثت یا تربیت یا مزاج کا اثر ہے ، میں نے خود اپنی رائے پر اعتراض کیا ہے لیکن میں نے دیکھا کہ سوال پھر پیدا ہوتا ہے اور وہ حل نہیں ہوتا ۔ مذہب کی ضرورت جس قدر مجھ کو اپنی ذاتی زندگی کے لئے ہے اس سے زیادہ عام سوسائٹی کو ہے ۔ مذہب کے شاخ و برگ ہزاروں مرتبہ کاٹ ڈالے ہیں لیکن جڑ ہمیشہ قائم رہی ہے جو کبھی زائل نہیں ہوسکتی۔ مذہب کا چشمہ روز بروز وسیع ہوتا جاتا ہے اور فلسفیانہ فکر اور زندگی کے دردناک تجربے اس کو اور گہرا کرتے جاتے ہیں ۔ انسانیت کی زندگی مذہب سے قائم ہوئی ہے اور اُسی سے قوت پائے گی ۔
قرآن مجید نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ مذہب ایک فطری شئے ہے ۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے : ’’پس اپنا منہ دین کی طرف سیدھا ہوکر کرو ۔ یہ وہ خدا کی فطرت ہے جس پر اﷲ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی حالت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔ یہی قائم رکھنے والا یا رہنے والا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ ( سورۃ الروم :۳۰)
مذہب کا روحانی اقتضاء اﷲ تعالیٰ کی ہستی کے اردگرد گھومتا ہے کیونکہ خدا کی ہستی کا شعور انسان کی فطرت میں رکھا ہوا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آتاہے : اگر تم ان سے سوال کرو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے کہ انھیں غالب علم والے نے پیدا کیا ہے ۔ اس سے واضح ہے کہ خدا کی ہستی کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور مذہب اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر دلائل اور براہین کے ذریعہ محکم ایمان پیدا کرتا ہے ۔
اگر تمام مذاہب عالم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ خدا کی ہستی کا تصور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ مذہب کی غرض و غایت اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا کرکے معرفت کاملہ تک پہنچنا ہے ۔
(تفصیل کے لئے دیکھیئے : مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ :
پروفیسر چودھری غلام رسول چیمہ )