’’مرحبا یا رمضان ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
’’اَللّٰهُمَّ سَلِّمْنَا لِرَمْضَانَ‘‘
مرحبا صد مرحبا پھر آمدِ رمضان ہے
کِھل اُٹھے مرجھائے دل تازہ ہوا ایمان ہے
یا اﷲ ! ہم عاصیوں پر تیرا بڑا احسان ہے کہ ہماری زندگی میں تو نے پھر رمضان کریم عطاء کیا ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اے ایمان والو تم پر ( رمضان کے ) روزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو‘‘ ۔ (سورۃ البقرہ ) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں : فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اُس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ‘‘ (متفق علیہ )
ماہِ رمضان اﷲ کا دیا ہوا ایسا تحفہ ہے جو مسلمانوں کی زندگیوں کو بدلتا ہے ۔ یہ مہینہ عبادت ، تقویٰ اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہے ۔ جسے اﷲ تعالیٰ نے رحمت بناکر بھیجا ہے ۔
رمضان کے پہلے ہی دن سے شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے ، دوزخ کے دروازوں کو بند کردیا جاتا ہے ، جنت کے سارے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جنت کا سجانا شروع ہوجاتا ہے ۔ رمضان ہمیں آواز دیتا ہے ، اے لوگو ! نیکی کے راستہ پر چلو ، بدی سے رُک جاؤ اور گناہوں سے توبہ کرو ‘‘ اس مہینہ میں چاروں طرف اﷲ کا نور برستا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اﷲ کی رحمت اور برکت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ قرآن کریم اور روزے ، دونوں بندہ کیلئے شفاعت کرتے ہیں ۔ حدیث قدسی ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اے روزہ رکھنے والو ! تم میرے لئے روزہ رکھ رہے ہو میں خود دنیا اور آخرت میں بھی روزہ کا بدل دوں گا ‘‘ ۔
ایک جاپانی نوبل انعام یافتہ سائنسداں کے ریسرچ سے پتہ چلا کہ روزہ کے دوران بھوکا اور پیاسا رہنے سے جسم میں ایک نظام Autophagy سے کینسر کے امکانات تقریباً ختم ہوجاتے ہیں ۔ سبحان ﷲ
اﷲ تعالیٰ ہماری عبادتوں میں بھی ہماری حفاظت چُھپا رکھی ہے ۔ روزہ ہم پر فرض کیا گیا تاکہ ہماری صحت دُرست رہے ۔ رمضان شب قدر کا مہینہ ہے اور حضور اکرم ﷺ پر نزول قرآن کا مہینہ ہے جس میں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں ۔ روزہ انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا بہترین کورس ہے ۔ روزہ دار کا تقویٰ اپنے عروج پر ہوتا ہے ۔ اس حد تک کہ اُس کا یہ ایمان بن جاتا ہے کہ ’’اﷲ دیکھ رہا ہے ‘‘ جو اُسے ہر بُرائی اور ہر گناہ سے روکتا ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا سونچیئے کہ اﷲ تعالیٰ نے جس طرح ہمیں رمضان جیسی نعمت عطاء کی کیا ہم نے اُس مہینہ کا احترام کیا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے ؟کیا ہم نے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کی ؟ کیا ہم نے بُرے کاموں جیسے جھوٹ کسوٹ ، فریب ، بے ایمانی ، غیبت ، چوری ، سودخوری جیسے سارے غلط کاموں سے توبہ اور پرہیز کیا ؟ کیا ہم نے بھوکوں اور پیاسوں کو کھلایا پلایا ؟ کیا ہم نے امن اور بھائی چارگی کا عمل کیا اور انسانیت کا مظاہرہ کیا جس کی محسنِ انسانیت ﷺ نے ہمیں تاکید کی ۔ کیا ہم نے پڑوسیوں کو تنگ کرنا بند کردیا ؟ کیا ہم نے والدین کی خدمت کی ؟ کیا ہم نے اپنے دلوں سے جلن ، حسد اور نفرت نکال پھینکی؟ بدگمانی اور بدزبانی سے پرہیز کیا ؟ کیا ہم نے رشتہ داری نبھائی ؟ کیا ہم اﷲ اور اُس کے بندوں کے شکرگذار اور احسان مند ہوئے ؟ کیا ہم نے اچھے اخلاق اور حُسن سلوک سے دینِ حق کو بڑھانے کی کوشش کی ؟ کیا ہم نے اپنے غیرمسلم ہم وطنوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ؟ کیا ہم نے بڑوں کی عزت کی اور چھوٹوں پر محبت اور شفقت برسائی ؟ کیا ہم نے اپنی اولاد کی صحیح دینی تربیت پر توجہ دی ؟ کیا ہم نے لوگوں سے اپنے معاملات سُدھارے ، راستے کے پتھر اور کانٹے ہٹائے اور کیا ہم نے اپنی زندگی کو سنوارنے کی اور بامقصد بنانے کی کوشش کی ؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر خدا ہم سے کیسے راضی ہوگا اور ہمارے گناہ معاف کرے گا ۔
اگر ہم صرف ’’رمضانی مسلمان‘‘ بن کر رہ گئے تو سمجھ لو کہ اﷲ کو ہمارے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی پرواہ نہیں :
سُنو میری بات روزہ دارو ، دلوں سے بارِ الم اُتارو
زمیں کے نام آسماں سے وہ چاندنی کا سلام آیا
نبیؐ کا نور آیا ، خدا کی رحمت کا جام آیا
فرشتے پیہم پکارتے ہیں ، صیام آیا صیام آیا
یاد رکھو زندگی کو رمضان جیسا بنالو تو موت عید جیسی ہوگی ان شاء اﷲ ۔ زندگی میں بس دلوں کو جیتنے کا مقصد رکھو کیونکہ رب کو جانے والے تمام راستے اُس کی مخلوق کے دلوں سے گذرتے ہیں۔ کتنی دلکش ہیں آپﷺ کی سنتیں ، عمل کرو تو زندگی سنورجائے ۔ خاتم النبیین ﷺ کے خطبۃ الوداع کی اس نصیحت کو خوب ذہن نشین کرلو کہ ’’جب تک قرآن مجید اور میری سنتوں کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے ، تم گمراہ نہیں ہوگے ۔
’’ اَللّٰهُمَّ سَلِّمْنَا لِرَمْضَانَ، وَسَلِّمْ لَنَا
وَتُسَلِّمْهُ مِنَّا مُتَقَبَّلًا‘‘ آمین یارب العالمین