مرشد سلطان الہند حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اﷲ علیہ

   

عبداللہ محمد عبداللہ
آپ ؒ کا اسم گرامی ’’عثمان ‘‘کنیت ’’ابوالنور‘‘لقب’’ شیخ الاسلام‘‘ ہے ۔ آپؒ کاسلسلہ نسب گیارہویں پشت میں سیدنا مولا علی شیر خداکرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے۔ آپؒ کی ولادت باسعادت اکثر مؤرخین کے نزدیک ۵۲۶ھ؁ دوسرے قول پر ۵۳۶ھ؁ قصبہ ’’ہارون یاہرون‘‘ خراسان، نیشاپور کے قریب ہوئی۔ اس مقام کی وجہ سے حضرت خواجہ علیہ الرحمہ کو ’’ہارونی‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس مقام کا اصل نام کیا ہے :بعض ہروَن اور اکثر ہارون کہتے ہیں۔ خیرالمجالس میں ہے :’’صحیح تو ہَرونی ہے لیکن عوام وخواص کی قلم وزبان پر ’’ہارونی‘ ‘ معروف ہے ۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور تشریف لے گئے ۔ وہاں مشاہیر علما ئو فضلاء کی سرپرستی میں علوم و فنون حاصل کیے ۔ آپؒ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ آپؒ کا خاندان چوں کہ عمدہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور علم دوست تھا۔ والد ماجد بھی جیدعالم تھے ، اس لیے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی علم کی طرف راغب ہو گئے اور والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علما و فضلا سے اکتساب علم کرکے جملہ علوم مروّجہ ومتداولہ میں دسترس حاصل کی۔جلد ہی آپؒ کاشمار وقت کے علمائوفضلاء میں ہونے لگا۔ ظاہری علوم کی تکمیل اس مرد باصفا کی آخری منزل نہ تھی۔اس لئے علوم باطنیہ کی تحصیل کاعزم مصمم کیا اﷲ جل شانہ نے آپؒ کے پُرخلوص ارادے کی بدولت امام الاولیاء، قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ حضرت خواجہ محمد شریف زندنی رحمۃ اﷲ علیہ کی خانقاہِ معلی میں پہنچادیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں ان کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے ،اور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کرنے لگے ۔عبادت وریاضت اور مجاہدہ ومکاشفہ نے جب کندن بنادیا تو نگاہِ مرشد نے منصبِ خلافت کے لیے منتخب فرمالیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے ۔اسی طرح حضرت خواجہ مودود چشتی رحمۃ اﷲ علیہ سے بھی فیض یاب ہوئے ۔ شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی رحمۃ اﷲ علیہ کاشمار اکابرین ِ امت اور کبار اولیا ء کرام ومشائخِ عظام میں ہوتا ہے ۔ علوم ظاہریہ وعلوم باطنیہ،شریعت وطریقت،تصوف ومعرفت میں مجمع البحرین تھے۔ صاحب سبع سنابل میرسید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اﷲ علیہ نے بیعت و خلافت کا تذکرہ یوں فرمایا ہے لکھتے ہیں: حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒکی عمر کافی تھی،آپؒ نے سفر بھی بہت کیے ،جب حضرت خواجہ شریف زندنی ؒکی خدمت میں پہنچے تو عرض کی: بندہ عثمان کی تمنا ہے کہ حضور والا کے مریدوں میں شمار کیا جائے ۔ خواجہ شریف زندنیؒ نے قبول کیا،خلافت کی کلاہ چار ترکی عنایت کی،قینچی (بالوں پر) چلائی اور فرمایا: مصطفیٰ ﷺنے کلاہ چار ترکی استعمال فرمائی ہے ،تمام کائنات کو خدا کی محبت میں چھوڑکرفقر و فاقہ اختیارفرمایا ہے ، فقیروں اور غریبوں سے محبت رکھی ہے ،لہٰذا جو شخص کلاہ چار ترکی سر پر رکھے ، اسے چاہیے کہ مصطفیٰ ﷺکی پیروی کرے اور ہرشخص کو اپنے سے برتر جانے ۔ جو شخص تکبر اختیار کرے اور اپنی فوقیت چاہے وہ درویش نہیں،نفس پرست ہے ۔ راہنما نہیں راہزن ہے۔ مشائخ کے خرقے کے لائق نہیں وہ چورہے ۔اہل نعمت نہیں بے نصیب ہے۔ مشائخ اس سے بے زار ہیں۔درویشی کا لباس اس پر حرام ہے ۔ اسے خرقہ پہنانا جائز نہیں اور نہ کلاہ چار ترکی سر پر رکھنا اور مرید کرنا۔ خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے شیخ کی نصیحت قبول کی اور گوشہ نشیں ہو کر ذکر لا الٰہ الا اﷲ میں مشغول ہو گئے ۔ تین برس کے بعد خواجہ زندنی نے خلافت کی کملی پہنائی اور فرمایا: اے عثمان! تمھیں میں نے پیدا کرنے والے کی بارگاہ میں پیش کیا۔ تمھیں پسند کیا گیا ہے پھر خواجہ زندنی ؒنے اسم اعظم جسے اپنے مرشد سے حاصل کیا تھا، خواجہ عثمان کو سکھادیا، جس سے علم معرفت کے اسرار اور شریعت و طریقت و حقیقت کے رموز آپ پر منکشف ہو گئے ۔ آپؒ صاحبِ ریاضت و مجاہدہ، قرآن مجید کے حافظ تھے ۔روزانہ ایک قرآن شریف کی تلاوت کرتے۔ آپ کاوصال۵ شوال المکرم ۶۱۷ھ ؁مکۃ المکرمہ میں ہوا۔
آپؒ صاحبِ ریاضت و مجاہدہ تھے ۔ قرآن مجید کے حافظ تھے ۔روزانہ ایک قرآن شریف کی تلاوت کرتے ۔سترسال کی مدت تک کسی وقت نفس کو پیٹ بھر کھانا پانی نہ دیا۔ رات کو نہ سوئے ، تین چار روز کے بعد روزہ رکھتے ، کبھی کبھی چار پانچ ہی لقمے پر اکتفا کر لیتے ۔ حضرت بلگرامی علیہ الرحمہ ان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:’’خواجہ عثمان ہارونی نے دس سال تک خود کو کھانا نہ دیا۔ آپؒ سات روز کے بعد ایک گھونٹ پانی پیتے ، اور عرض کرتے : خدایا! ہمیں نفس کے ظلم سے بچا،نفس مجھ پر غالب آنا چاہتا ہے ۔مجھ سے پانی مانگتا ہے تو میں ایک گھونٹ منہ بھر دیتا ہوں۔ خواجہ عثمان ہارونیؒ سماع میں بہت روتے کبھی کبھی زرد پڑ جاتے ۔آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا،جسم مبارک میں خون نہ رہتا۔ایک زوردار نعرہ لگاتے اور آپ پر وجد طاری ہوجاتا۔آپ کی سب سے بڑی کرامت سلطان الہند عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ہے ۔اسی طرح حضرت شیخ نجم الدین صغریٰ علیہ الرحمہ ،ایسے نفوس قدسیہ جن کی تبلیغ سے لاکھوں غیرمسلم مشرف بااسلام ہوئے ۔آپ کے ملفوظات ’’انیس الارواح‘‘ کے نام سے حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے جمع فرمائے ہیں۔ آپ کاوصال۵ شوال المکرم ۶۱۷ھ مکۃ المکرمہ میں ہوا۔