مرکزی فیصلوںکو کے سی آر کی حمایت

   

عجیب چیز ہے خاکستر محبت بھی!
ذرا کسی نے چھوا اور آگ اُبھر آئی
مرکزی فیصلوںکو کے سی آر کی حمایت
صدر ٹی آر ایس و چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راو نے بی جے پی اور مرکزی حکومت کے ساتھ ٹکراو کا راستہ اختیار کرنے کے بعد اچانک ہی یو ٹرن لینے شروع کردئے ہیں اور وہ ایک بار پھر نریندر مودی حکومت کے فیصلوں کی حمایت میں اتر آئے ہیں۔ کے سی آر نے ویسے تو ابتداء ہی سے مودی حکومت کے فیصلوں کی تائید و حمایت کی تھی ۔ انہوں نے انتہائی اہمیت کے حامل قوانین اور فیصلوںپر بھی حکومت کی تائید کی تھی حالانکہ کئی فیصلوں پر عوام نے شدید اعتراض ظاہر کیا تھا ۔ عوام نے ایسے فیصلوں کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا لیکن کے سی آر نے ان فیصلوں کی حمایت کی تھی ۔ حیدرآباد میں جی ایچ ایم سی انتخابات سے قبل کے سی آر دوباک اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد سے کے سی آر نے مرکزی حکومت کے فیصلوں کی مخالفت کا آغاز کیا تھا اور کھلے عام تنقیدیں بھی کرنے لگے تھے ۔ انہوں نے جی ایچ ایم سی انتخابات کے بعد تین زرعی قوانین کے خلاف ٹی آر ایس کی جانب سے احتجاج بھی کروایا تھا ۔ انہوں نے پارٹی کیڈر اور قائدین کو احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تاکید بھی کی تھی ۔ اس کے بعد جب جی ایچ ایم سی کے نتائج کا اعلان ہوا اور ٹی آر ایس کو شدید نقصان پہونچا تو انہوں نے اس کے اچانک ہی اپنے موقف میں نرمی پیدا کرلی ۔ کے سی آر نے اچانک ہی مرکزی حکومت کے فیصلوں کی حمایت کا آغاز کردیا ۔ انہوں نے سب سے پہلے تو اپنے موقف کو تبدیل کرتے ہوئے ترمیم شدہ زرعی قوانین کو تلنگانہ میں نافذ کرنے کا اعلان کردیا جس کے خلاف انہوں نے خود احتجاج کیا تھا ۔ اب انہوں نے ریاست کی آروگیہ شری اسکیم سے مرکز کی آیوشمان بھارت اسکیم کو مربوط کردینے کا فیصلہ بھی کردیا ہے ۔ ریاستی وزیر صحت ایٹالہ راجندر کا حالانکہ یہ واضح کہنا ہے کہ آروگیہ شری اسکیم ‘ آیوشمان بھارت اسکیم سے بہت زیادہ بہتر ہے ۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت کی اسکیم کو ریاست میں لاگو کیا جا رہا ہے ۔ ان فیصلوں سے ایسا لگتا ہے کہ چندر شیکھر راو ریاست میں بی جے پی کو ٹی آر ایس حکومت پر تنقیدیںکرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چندر شیکھر راو مرکزی قیادت سے خوشگوار اور بہتر مراسم رکھتے ہوئے ریاستی قائدین کی تنقیدوں کا اثر کم کرنا چاہتے ہیں۔ دوباک ضمنی انتخاب میں کامیابی اور جی ایچ ایم سی میں 48 کارپوریٹرس کی جیت کے بعد ریاست میں بی جے پی کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ بی جے پی اب ناگرجناساگر ضمنی انتخاب پر نظریں لگائے ہوئے ہے ۔ پارٹی کے ریاستی قائدین کے تیور جارحانہ ہوگئے ہیں اور وہ ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راو کو شائد یہ احساس ہونے لگا ہے کہ انہوں نے ریاست میں تلگودیشم اور کانگریس کا عملا صفایا کرتے ہوئے غلطی کی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں بی جے پی کو اپنی جگہ بنانے اور عوام تک پہونچنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے اور بی جے پی اسی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کے سی آر اب چندر ا بابو نائیڈو کی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس وقت متحدہ آندھرا پردیش ریاست تھی چندرا بابو نائیڈو نے تمام مشوروں کے برخلاف بی جے پی سے اتحاد کیا تھا اور اس اتحاد کے نام پر انہوں نے تلنگانہ میں بی جے پی کو قدم جمانے یا اپنے حلقہ اثر کو وسعت دینے سے باز رکھا تھا ۔ ایک اتحادی جماعت کو ساتھ رکھنے کی کوشش میں مرکزی قیادت نے بھی ریاستی بی جے پی قائدین کی اتنی حوصلہ افزائی کرنے سے گریز ہی کیا تھا جتنی ریاستی قائدین کو امید تھی ۔ اب چندر شیکھر راو بھی اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بی جے پی نے تلنگانہ کیلئے اپنے تیور جارحانہ کرلئے ہیں۔ جس طرح سے مغربی بنگال کیلئے ایک باضابطہ مشن شروع کیا گیا تھا تلنگانہ میں بھی اسی طرح کے مشن کے امکانات تھے اور یہ مشن عملا شروع بھی ہوگیا تھا ۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کے سی آر نے اپنی مخالفت کی حکمت عملی تبدیل کردی ہے اور وہ بی جے پی کے ریاستی قائدین کو تنقیدوں کا زیادہ موقع دینا نہیں چاہتے ۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی کو جال میں پھانسنے کی کوشش میں خود کے سی آر بی جے پی کے جال میں پھنس جائیں اور انہیں خود اپنی چال مہنگی پڑ جائے کیونکہ بی جے پی اب ملک میں نہ اپوزیشن کو برداشت کرنے تیار ہے اور نہ حلیف جماعتو ں کو پنپنے کا موقع دینا چاہتی ہے ۔ یہ حقیقت کے سی آر کو بہرحال ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔