مرکز و دہلی حکومت کا ٹکراؤ

   

گذشتہ دنوں ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے دارالحکومت دہلی میںعاملہ اور مقننہ کے اختیارات دہلی کی عوامی کے ووٹ کے ذریعہ منتخبہ حکومت کو سونپے تھے ۔ اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ دہلی میں اروند کجریوال حکومت کی جانب سے اب تک لیفٹننٹ گورنر کے تعلق سے جو شکایات کی جاتی رہی تھیں ان کا سلسلہ اب ختم ہوگا اور سپریم کورٹ کے احکام کے بعد دہلی کی حکومت کو کھل کر اپنے طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائیگا ۔ تاہم فی الحال جو حالات ہیں ان میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا ہے کہ مرکزی حکومت اس کیلئے اب بھی تیار نہیں ہے اور وہ دہلی حکومت کے کام کاج میں کسی نہ کسی طرح سے رکاوٹ ہی پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ کی رولنگ کو بدلنے کیلئے ایک آرڈیننس جاری کرنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعہ دہلی حکومت کے کام کاج میںرکاوٹیں برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ چیف منسٹر اروند کجریوال نے سپریم کورٹ کی رولنگ کے فوری بعد سروسیس سکریٹری کا تبادلہ کردیا تھا ۔ اس فائیل کو منظوری کیلئے لیفٹننٹ گورنر کو روانہ کیا گیا تھا ۔ کجریوال کا کہنا ہے کہ اس فائیل کو بھیجے دو دن ہوگئے ہیں اس کے باوجود گورنر نے اس کو منظوری نہیں دی ہے ۔ کجریوال نے اس اندیشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر مزید فائیلیں گورنر کو روانہ کی جائیں گی تو انہیں بھی روک دیا جائیگا تاکہ مرکز کو ایک آرڈیننس جاری کرنے کا موقع ملے اور پھر دہلی حکومت کے کام کاج میںرخنہ اندازی او ررکاوٹ جاری رہ سکے ۔ مرکزی حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور نہ ہی دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نے کوئی جواب دیا ہے تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے سپریم کورٹ کی رولنگ کے ذریعہ دہلی میں حالات تبدیل ہونے کی جو امید کی جا رہی تھی وہ فی الحال پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ کجریوال کی جانب سے مرکز کے خلاف اور لیفٹننٹ گورنر کے خلاف الزامات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ اگر یہی سلسلہ مزید جاری رہا اور کام کاج میں رکاوٹ پیدا کی جاتی رہی تو پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی اثر نہیںہوگا ۔
عام آدمی پارٹی کی کجریوال حکومت کے کام کاج میں ویسے تو مرکز کی جانب سے بہت پہلے سے ہی رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ مرکزی زیر انتظام علاقہ ہونے کی وجہ سے کامل اختیارات دہلی کی حکومت کو حاصل نہیں ہیں لیکن مرکزی حکومت کو بھی یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ کجریوال حکومت بھی دہلی کے عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئی ہے ۔ اسے بھی کام کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے ۔ دستور اور قانون میں دہلی کی حکومت کے جو اختیارات ہیں ان کا استعمال کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ سیاسی اختلاف رائے کو سرکاری کام کاج میں رکاوٹ بننے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے اور اس کے ذریعہ عوام کی مشکلات کو دور کرنے کی کوششیں متاثر نہیںہونی چاہئیں۔ ملک میں وفاقی طرز حکمرانی ہے اور اس کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہماری جمہوریت کا یہی طرہ امتیاز ہے کہ لوگ میونسپل کارپوریشن میں ایک جماعت کو ووٹ دیتے ہیں تو ریاست میں اقتدار کسی اور جماعت کو دیا جاتا ہے ۔ مرکز میں کسی اور جماعت کی حکمرانی ہوتی ہے تو کئی ریاستوں میں دوسری جماعتیں برسر اقتدار ہوتی ہیں۔ یہ ہماری جمہوریت کا طرہ امتیاز ہے ۔ جمہوری عمل اور وفاقی طرز حکمرانی کا احترام کرنا ہر جماعت اور ہر حکومت کی ذمہ داری اور اس کا فریضہ ہے ۔ اس کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہئے ۔ سیاسی اختلاف رائے ہر جماعت کا بنیادی حق ہے لیکن اس کو بنیاد بنا کر جمہوری عمل سے منتخبہ حکومت کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔
ہر حکومت کی ذمہ داری اور اس کے اختیارات کا تعین کرنے کیلئے پہلے تو عدالتی کشاکش ہی نہیں ہونی چاہئے ۔ عدالتوں کے سامنے بے شمار معاملات ہیں۔ جو کام کاج حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اپنے رویہ میں تبدیلی لاتے ہوئے یقینی بناسکتی ہیں اس کیلئے عدالت کا وقت ضائع نہیں کیا جانا چاہئے ۔ دہلی کے معاملے میں تو ملک کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ نے رائے دیدی ہے اور اس کا احترام کرنا چاہئے ۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے قوانین کی توڑ مروڑ سے کام لینے کی بجائے فراخدلی اور وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے ایک اچھا ماحول فروغ دیا جانا چاہئے تاکہ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے ۔