مرکز کی ٹیکہ پالیسی

   

گذشتہ سال جس وقت سے ملک میں کورونا وائرس نے ہندوستان میںاپنا اثر دکھانا شروع کیا تھا اس وقت سے ہی حکومتوں کی جانب سے اس سے نمٹنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیںکئے گئے تھے ۔ اڈھاک بنیادوں پر وقتی فیصلے کرتے ہوئے ملک کے عوام کو مسائل اور پریشانیوں کا شکار کردیا گیا ۔ لاکھوں افراد اس مہلک وباء کا شکار ہوئے اور تین لاکھ سے زیادہ ہندوستانی اب تک اس وائرس کی وجہ سے زندگی ہار بیٹھے ہیں۔ خاص طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے تو کوئی ایسا ٹھوس کام کیا ہی نہیں گیا جس کی بنیاد پر اس وائرس پر قابو پانے اور اس سے نمٹنے میں کوئی مدد مل سکتی ۔ عوام کو راحت پہونچانے کیلئے بھی حکومت نے کوئی کام نہیںکیا تھا ۔ صرف دکھاوے کے کچھ کام کئے گئے اور خود کو بر ی الذمہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر نے بھی ہندوستان میں کم تباہی نہیں مچائی تھی تاہم دوسری لہر نے تو قیامت صغری جیسے حالات پیدا کردئے ہیں۔ کورونا کی پہلی لہر کے بعد مرکزی حکومت نے ٹیکہ کی دریافت پر ساری توجہ مرکوز کرنے کا دعوی کیا ۔ ملک میں ٹیکے تیار بھی کئے گئے ۔ ملک کے عوام کو مخصوص زمروں میں بانٹ کر ٹیکہ اندازی کا عمل شروع بھی کیا گیا لیکن ابتداء میںملک کے عوام کو ٹیکے دینے کی بجائے یہ ٹیکے بیرونی ممالک کو فروخت کردئے گئے ۔ جب کورونا کی دوسری لہر نے ہندوستان پر ہلہ بولا تو پھر کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں مل سکا ۔ خاص طور پر مودی حکومت تو اس جانب توجہ ہی نہیں کرپائی کیونکہ وہ بنگال انتخابات میں مصروف تھی ۔ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا روز کا معمول بنگال کے دورے اور انتخابی جلسوں تک محدود ہوگیا تھا ۔ تاہم بنگال انتخابات کے بعد بھی حکومت کی جانب سے ٹیکہ اندازی کیلئے کوئی موثر پالیسی تیار نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی منصوبہ تیار کیا گیا ۔ صرف اڈھاک بنیادوں پر ہی کوئی فیصلے کئے گئے ہیں جن کا خمیازہ ملک کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ پہلے معمر شہریوں کو ٹیکہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پھر کورونا وارئیرس کا انتخاب کیا گیا ۔ پھر ادھیڑ عمر کے لوگوںکو ٹیکہ دینے کا عمل شروع کردیا گیا حالانکہ ملک میں وافر مقدار میں ٹیکے موجود ہی نہیں تھے ۔

ٹیکوں کے اسٹاک اور دستیابی کا جائزہ لئے بغیر 45 سال سے زیادہ عمر والے افراد کو ٹیکہ دینے کا عمل شروع کیا گیا ۔ پھر 18 سے 44 سال عمر والوںکو ٹیکہ دینے کا اعلان بھی کردیا گیا ۔ اس کیلئے رجسٹریشن بھی شروع کردیا گیا لیکن ملک کی کئی ریاستوں کے بیشتر شہروں میں ٹیکہ کا اسٹاک ہی دستیاب نہیں کروایا جاسکا ۔ ٹیکہ تیار کرنے والی کمپنیوں نے بھی اتنی بھاری تعداد میں ٹیکے فراہم کرنے سے معذوری کا اظہار کردیا ۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ کے آدر پونا والا تو اندرون مل دباو کو برداشت نہیں کرسکے اور راتوںرات لندن روانہ ہوگئے ۔ بھارت بائیو ٹیک نے بھی اتنی بھاری تعداد میں ٹیکہ کی تیاری سے معذوری ظاہر کی ۔ اب روس سے اسپوتنک وی کے ٹیکے برآمد کئے جا رہے ہیں۔ یہ سارا کچھ مرکزی حکومت کی نا اہلی اور عدم کارکردگی اور منصوبہ بندی و پالیسی کے فقدان کا نتیجہ ہے ۔ نہ تو پہلے ملک میںٹیکوں کی تیاری کی اہلیت کا جائزہ لیا گیا ۔ نہ ملک میں ٹیکہ دینے کے قابل عوام کا تعین کیا گیا ۔ جیسے ہی ٹیکہ تیار ہوا دنیا بھر میں جھوٹی شان کیلئے یہ ٹیکے بیرونی ممالک کو روانہ کردئے گئے ۔ پھر ملک میں ٹیکوں کی تیاری بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ نہ کوئی حکمت عملی تیار کی گئی ۔ نہ اس کیلئے علیحدہ سے کوئی بجٹ فراہم کیا گیا اور نہ ہی ٹیکہ تیار کرنے والی کمپنیوں کی گنجائش میںاضافہ کیلئے کوئی مدد فراہم کی گئی ۔ صرف عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ٹیکہ دینے کا اعلان کردیا گیا ۔

مرکز کی ٹیکہ سے متعلق ناقص پالیسی کی وجہ سے ملک کے کئی شہروں میں ٹیکہ اندازی کا عمل درمیان میں روکنا پڑا ۔ ٹیکہ اندازی کے مراکز کو اچانک کئی کئی دن بند کردینا پڑا ۔ ٹیکہ کی پہلی خوراک لینے والوںکو دوسری خوراک ملنے کا یقین نہیں رہ گیا ۔ اس کیلئے انہیں کافی جدوجہد کرنی پڑی ۔ ٹیکے کی قیمتوں کا تعین تک مناسب انداز میں نہیں کیا گیا ۔ ریاستوں کی ضروریات کا جائزہ لئے بغیر ایسے اقدامات کئے گئے جن سے عوام کو مشکلات پیش آئیں۔ اب تو خود سپریم کورٹ نے مرکز کی ٹیکہ پالیسی کو غیراطمینان بخش قرار دیا ۔ مرکز سے اپنی غلطی کا اعتراف کرلینے کو کہا ہے ۔ کم از کم اب مرکزی حکومت کو اس تعلق سے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو خامیاںہیں انہیںدور کرکے عوام کو راحت پہونچانا چاہئے ۔