مریانے علی رضا کی انگریزی کتابAt the Drop of Veil

   

مبصر: محمد ریاض احمد

قرطاس و قلم یقینا سنہری یادوں باتوں، خوشی و غم کے جذبات و احساسات پر مبنی واقعات کو بہتر سے بہتر انداز میں منظر عام پر لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ انسان قلم کے ذریعہ قرطاس ابیض پر لفظوں کے موتی بکھرتا ہے اور ان موتیوں میں یادیں بھی ہوتی ہیں اور ہر یاد لاقیمت ہوتی ہے مثلاً آپ ہیرے جواہرات لعل و گوہر اور نظروں کو خیرہ کردینے والی انتہائی خوبصورت و پرکشش موتیوں کی قیمت کا تعین تو کرسکتے ہیں لیکن یادیں لاقیمت ہوتی ہیں۔ زیرتبصرہ انگریزی کتاب At the Drop of a Veil بھی ایک ایسی سلیقہ شعار وفادار اور اپنے شوہر، ساس، نندوں، جٹھانی، ان کے بچوں اور خاندان کے بزرگ مرد و خواتین کو ٹوٹ کر چاہنے ان کی عزت و احترام کرنے والی ایک امریکی خاتون کے زور قلم کا نتیجہ ہے جس نے 1940ء کے دہے میں سرزمین سعودی عرب پر قدم رکھا اور پھر12، 15 سال شاہی خاندان سے قربت رکھنے والے ایک باوقار و معزز و بااثر عرب خاندان میں گذارے اور جس نے اپنے 5 بچوں کی بہتر سے بہتر انداز میں تربیت بھی کی۔ ہم بات کررہے ہیں محترمہ Marianne Ali Reza کی اس امریکی عیسائی خاتون نے 1943ء میں کیلفورنیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے اپنے ایک عرب ساتھی علی رضا سے محبت کی اور پھر دونوں کی محبت اس قدر پروان چڑھی کہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ شادی کے ساتھ ہی علی رضا ’’شیخ علی رضا‘‘ بن گئے کیونکہ اس وقت کی حکومت ِسعودی عرب نے انہیں کئی ایک سفارتی ذمہ داریاں سونپ دی تھیں۔ اس کتاب کے تاحال بے شمار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور دنیا بھر بالخصوص مغربی ملکوں اور مشرق وسطیٰ میں اسے خوب پسند کیا گیا ہے۔ یہ کتاب صرف یادوں کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ مریانے علی رضا کی خودنوشت سوانح حیات بھی ہے جس نے سعودی عرب کے شاہی خاندان، ان کی دریادِلی، انسانیت نوازی، حسن اخلاق، مہمان نوازی ،عربوں کے خاندانی اقدار، مشترکہ خاندانوںکی خصوصیات عربوں کی محبت و مروت بالخصوص سعودی معاشرہ میں خواتین کے مقام و مرتبہ، حجاب کی سختی سے پابندی، مردوں و خواتین کی علیحدہ علیحدہ محفلوں و مجلسوں، سعودی مرد و خواتین کی مذہب پسندی، نمازوں کی سختی سے پابندی، ماہ صیام میں روزوں کا اہتمام، سحر و افطار، سعودی عرب کے روایتی پکوانوں، ذائقوں، مشروبات مرد و خواتین کے ذوق لباسی، حمل و نقل کے ذرائع، شدت کی گرمی، مکھیوں و مچھروں کی بہتات غرض سعودی عرب کے معاشرہ کے ہر نکتہ کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ نماز کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ جسمانی اور ذہنی کسرت ہے ، اس سے روح کی پاکیزگی اور اس کی تطہیر ہوتی ہے۔274 صفحات پر مشتمل اس دیدہ زیب کتاب میں Marianne Ali Raza نے سعودی معاشرہ کے ہر گوشہ پر روشنی ڈالی ہے۔ کتاب میں وہ اپنے بارے میں خود لکھتی ہیں کہ انہیں سعودی عرب کی پہلی امریکی بہو ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ جہاں تک اُس وقت کے سعودی عرب کا تعلق ہے، ہر طرف صحرا ہی صحرا دکھائی دیتا تھا، سڑکوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بجلی اور پانی کا انتظام نہیں تھا۔ دواخانے، کلینکس، شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے۔ کہیں کہیں انگریزی، مصری ڈاکٹر پائے جاتے تھے۔ کچھ کاریں اور گاڑیاں نظر آتی تھیں جبکہ اونٹ، گھوڑے، گدھے اور خچر حمل و نقل کے اہم ذرائع سمجھے جاتے تھے۔ بلند و بالا عمارتوں کے بارے میں لوگ سوچتے بھی نہیں تھے لیکن پٹرو ڈالر (تیل کی دریافت نے) سعودی عرب کی حالت ہی بدل کر رکھ دی۔ تیل کے ذخائر کی دریافت سے قبل کھجور، بھیڑ بکروں کی کھال (چرم) اور عازمین حج و عمرہ سے حاصل ہونے والے محاصل ہی اس عظیم ملک کی آمدنی تھی لیکن صحراؤں، ساحلی علاقوں اور اندرون ملک سطح مرتفع کے حامل سعودی عرب میں 1930ء کے اواخر میں تیل کی دریافت کے ساتھ ہی صحرا میں دولت کے چشمے اُبلنے لگے اور پھر 1950ء سے یہ حال ہوگیا کہ شاہی خزانوں میں دولت کے انبار لگ گئے اور پھر جہاں کل تک بسیں، کاریں اور طیارے خال خال نظر آتے تھے، مملکت کی اپنی ایرلائینز قائم ہوگئی اور طیاروں کی آمدورفت شٹل بسیس کی طرح عام ہوگئی۔ 1950ء کے دہے سے سعودی عرب میں ترقی کی رفتار تیز ہوئی، بڑے بڑے پراجیکٹس مملکت میں شروع کئے گئے ، سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ پانی، بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، عازمین حج و معتمرین کو غیرمعمولی سہولتیں فراہم کی جانے لگیں۔ ان سب کاموں کیلئے اسے کسی دوسرے ملک یا عالمی اداروں سے قرض حاصل کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ ہاں مہارت و غیرمہارت کے حامل و ورکروں پیشہ وارانہ ماہرین کی ضرورت لاحق ہوئی۔ Marianne Ali Reza نے اپنی اس کتاب میں آسان و سلیس انگریزی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ کس طرح 1970-80ء کے دوران مملکت سعودی عرب میں بیرونی ورکروں کی کثیر تعداد میں آمد کے ساتھ ہی صنعتوں کو زبردست فروغ حاصل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سعودی عرب کو ناقابل یقین ترقی حاصل ہوئی۔ 1971ء میں تحریر کردہ اپنی کتاب میں انہوں نے بہت ہی خوبصورت انداز میں اس دور کے سعودی معاشرہ کا خاکہ کھینچا اور بتایا کہ خواتین کس طرح حجاب کی سختی سے پابندی کیا کرتی تھیں۔ سعودی عرب میں آمد کے ساتھ ہی وہ بھی مجبوراً حجاب کرنے لگی کیونکہ وہاں اس کے سواء کوئی چارہ کار ہی نہیں تھا۔ کتاب میں بہت ہی متاثرکن اور دلنشین انداز میں Marianne نے لکھا کہ ان کیلئے حجاب و نقاب کو سنبھالنا کس قدر مشکل ہوتا، کبھی کبھی وہ نقاب کے باعث اپنا توازن کھو بیٹھتی اور لڑکھڑاجاتیں ۔ ابتدائی دنوں میں انہیں اپنی سسرالی اور دوسری خواتین سے بات چیت میں کافی مشکلات آئیں لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اس مسئلہ پر قابو پالیا۔ ویسے بھی آج کی نسل 1940ء اور 1950ء کے سعودی عرب کا تصور بھی نہیں کرپائے گی۔ بہرحال At the Drop of a Veil کے صفحہ اول سے لے کر صفحہ آخر تک مصنفہ نے جن باتوں پر زور دیا وہ خواتین کا پردہ، ان کا حجاب و نقاب ہے۔ انہوں نے شاہی خیموں سے لے کر عام سعودی شہریوں کے مکانات میں بھی حجاب کے بارے میں لکھا ہے۔ کئی ایسے واقعات بھی بیان کئے ہیں جس میں بتایا گیا کہ کس طرح حجاب یا برقعہ ان کیلئے مشکل بن گیا تھا۔ یعنی کئی مقامات پر برقعہ سنبھالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ پھر بھی انہوں نے سعودی عرب میں قیام کے دوران عرب خاندانی اقدار پر عمل کرنے کی ممکنہ کوشش کی۔ اس کتاب میں انہوں نے نجدی اور حجازی خواتین کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ نجدی خواتین بھاری بھرکم اور بلند قامت تھیں جبکہ سعودی عرب کی خواتین کے چہرہ پر میک اَپ بھی نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کے چہروں سے قدرتی حسن جھلکتا تھا۔ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود (ابن سعود) سے اپنی ساس، نندوں اور دیگر افراد خاندان کے ہمراہ پہلی ملاقات کے بارے میں Marianne لکھتی ہیں کہ جب وہ شاہ ابن سعود کے خیمہ میں ارکان خاندان کے ہمراہ داخل ہوئیں تو انہوں نے امریکی خاتون (Marianne) (ان) کے بارے میں دریافت کیا۔ مریانے کے مطابق شاہ ابن سعود کا قد 6′-4″ تھا۔ وہ انتہائی قوی تھے اور ان کے ہاتھ اس قدر بڑے تھے کہ زندگی میں انہوں نے اتنے بڑے ہاتھ کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اُس ملاقات میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب شاہ ابن سعود نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اُمید ہے کہ آپ مسلمان ہوجائیں گی چونکہ مریانے عربی بات چیت سے ناواقف تھی، انہیں صرف الحمدللہ، سبحان اللہ اور انشاء اللہ جیسے کلمات ہی انہیں یاد تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے حجاب کو بڑی مشکل سے سنبھاتے ہوئے کانپتے ہونٹوں اور لہجے کو سمٹتے ہوئے انشاء اللہ کہا۔ اس کے بعد پھر کبھی مریانے سے کسی نے بھی دین اسلام قبول کرنے کیلئے نہیں کہا۔ وہ خود لکھتی ہیں کہ ان کے اور شوہر علی رضا کے درمیان یہ معاہدہ ہوچکا تھا کہ جو بچے ہوں گے وہ مسلمان ہوں گے چنانچہ ان کی پہلی بیٹی حمیدہ، دوسرا بیٹا فیصل، تیسرا بیٹا طارق، چوتھی بیٹی نادیہ اور پانچواں بیٹا عسان کو دینی تعلیم دی گئی، اس کتاب میں مریانے لکھتی ہیں کہ اُس وقت شاہی خواتین جو لباس زیب تن کیا کرتی تھیں، وہ کم از کم 15 گز کا ہوتا تھا اور اس پر بہت زیادہ ایمبرائیڈری کا کام کروایا جاتا تھا اور پھر ڈھیر سارے زیورات بھی ہوتے۔ انہوں نے کتاب میں جدہ، طائف اور سعودی عرب کے دوسرے مقامات کے موسم، دن رات، گرمی سردی اور مقامی روایات پر بھی لکھا ہے۔ خاص طور پر ام طلال، ان کے فرزند شہزادہ نواف، شہزادہ فیصل السعود، شہزادہ فیصل کی دادی، شہزادہ عبداللہ الفیصل، شہزادہ فیصل کے بھائیوں شہزادہ محمد، شہزادہ خالد، ان کے فرزند شہزادہ عبداللہ، شیخ ابراہیم سلیمان ، میڈم ابراہیم سلیمان ، شہزادہ محمد بن عبدالعزیز، شیخ حافظ وجیہ، شہزادہ فیصل کی اہلیہ شہزادی عفت کا بھی بار بار ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ سعودی شاہی خاندان کے جن ارکان سے بھی ان کی ملاقات ہوئی، وہ بڑے بااخلاق تھے۔ ایک بات انہوں نے زور دے کر لکھا کہ جب تک وہ سعودی عرب میں رہیں، کسی نے بھی ان کا مذہب تبدیل کروانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی انہیں دین اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ اپنی کتاب میں انہوں نے خاص طور پر اَنار اور انگور کے مشروبات ہندوستانی آم کی آئسکریم کا بھی ذکر کیا ہے اور بتایا کہ کیسے جدہ میں ان کے گھر میں فریج لایا گیا اور سعودی عرب میں کاربونیٹڈسافٹ ڈرنکس کی آمد ہوئی اور مچھردان کی کیا اہمیت تھی۔کتاب میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ کیسے ان کے شوہر نے 5 بچوں کے بعد بھی انہیں چند لمحوں میں طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کردیا۔ واضح رہے کہ Marianne Ali Reza کا انتقال 26 مئی 2019ء کو ہوا اور جدہ میں ہی ان کی تدفین عمل میں آئی۔ ان کے کئی پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور پڑپوتے پوتیاں اور پڑنواسے نواسیاں ہیں۔ 28 مارچ 1922ء ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ بہرحال اس کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب کے معاشرے بالخصوص خواتین کے مقام و مرتبہ میں کیا تبدیلی آئی اور حجاب (سخت پردہ) کے معاملے میں کیا حال تھا اور اب کیا حال ہے۔٭
نوٹ : نیوز ایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خاں حال ہی میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جہاں ممتاز سعودی صحافی خالدالمعینا سابق ایڈیٹر اِن چیف ’’سعودی گزٹ‘‘، ’’عرب نیوز‘‘ نے یہ کتاب بطورِ تحفہ پیش کی۔