مسئلہ لو جہاد کا

   

نہ مشورہ دو ہمیں تم کسی سہارے کا
جو پستہ قد ہیں وہی سیڑھیاں تلاش کریں
ہندوستان میں وقفہ وقفہ سے اس طرح کے نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دینے کی منظم کوششیں ہوتی ہیں جن کے ذریعہ سماج کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سازشوں کی بو آتی ہے۔ سماج کو جوڑنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی بجائے سماج کے اتحاد کو ختم کرنے کے منصوبوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ ذہنی پراگندگی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ لوگ ملک کے مفاد پر غور کرنے کے بجائے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے منصوبوں پر دھڑلے سے عمل کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ یہ ذہنیت دراصل ان فتنہ انگیزیوں کا نتیجہ ہے جن کو ٹی وی چیانلس پر مباحث کے ذریعہ عوام کے ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہے۔ عوام کے ذہن اس قدر پراگندہ کئے جارہے ہیں کہ انھیں کسی مسئلہ کی اہمیت اور سنگینی کا احساس نہیں ہورہا ہے اور وہ ہر مسئلہ کو تعصب اور تنگ نظری سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ کئی طرح کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے یہ کام پوری شدت سے کیا جارہا ہے۔ اس میں کئی ادارے، افراد اور تنظیمیں سرگرم ہیں۔ ان سب کی سوچ و فکر اور ذہنیت میں یکسانیت دیکھی جاتی ہے۔ وہ اس سوچ اور ذہنیت کو ملک کے تمام افراد پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جس سے ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی انفرادیت ختم ہوسکتی ہے۔ اس طرح کے مسائل میں ایک مسئلہ لو جہاد کا بھی چھیڑا گیا ہے۔ اس کی حقیقت کچھ نہیں بلکہ فرقہ پرست اور متعصب ذہنیت رکھنے والوں کی منفی سوچ ہی ہے۔ اس مسئلہ کو بھی بار بار پیش کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر اس کا اثر ڈالنے اور چھاپ چھوڑنے کے عزائم کے ساتھ کام کیا جارہا ہے اور یہ لوگ اپنے خیال میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ ملک کے عوام کی اکثریت کا جہاں تک سوال ہے وہ اس طرح کے اختلافی اور نزاعی مسائل میں اُلجھنے کے بجائے بنیادی مسائل پر توجہ دینا چاہتے ہیں لیکن انھیں اس کا موقع نہیں دیا جارہا ہے۔ انھیں کئی طرح کی کوششوں کے ذریعہ نزاعی اور فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل میں اُلجھاکر رکھا جارہا ہے۔ ٹی وی چیانلس اس میں ایک اہم اور مرکزی کردار ادا کررے ہیں۔ وہ خود بنیادی مسائل سے توجہ ہٹاکر دوسروں کے ذہن سے بھی ان مسائل کو محو کردینا چاہتے ہیں جو ان کے پیشہ سے بددیانتی کے مترادف کہا جاسکتا ہے۔
ایک ایسے وقت جبکہ ملک میں نفرتوں کو ختم کرکے محبتوں کو پروان چڑھانے کی کوششیں ہورہی ہیں اور عوام کی اکثریت اور کئی طبقات ان کوششوں سے خود کو جوڑ رہی ہیں، ایسے میں ایک بار پھر لو جہاد کے مسئلہ کو ہوا دینے کی کوششیں تیز کی جارہی ہیں۔ اس سلسلہ میں ممبئی میں ایک ریلی منظم کرکے لو جہاد کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تبدیلی مذہب کے مسئلہ کو بھی اس سے جوڑنے اور ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لو جہاد بنیادی طور پر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بین مذہبی شادیاں اب شاذ و نادر ہی ہوگئی ہیں لیکن انتخابی سیاست میں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے سنگھ پریوار سے وابستہ مختلف تنظیمیں اس کو مسلسل ہوا دے رہی ہیں۔ جس طرح کی صورتحال کا دعویٰ کیا جاتا ہے ایسا بالکل نہیں ہے۔ اب تازہ معاملہ میں شردھا واکر کیس کا حوالہ دیا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کیس میں اصل ملزم آفتاب پونا والا کا مسلمان ہونا بھی طے نہیں ہے۔ یہ محض مماثل نام کی وجہ سے مسائل پیدا کئے جارہے ہیں اور اس کے خالص سیاسی عزائم ہیں۔ ایسی کوششوں کے ذریعہ ایک فرضی تاثر عام کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور یہ سب کچھ منظم انداز میں ایک منصوبہ کے تحت ہی کیا جارہا ہے۔ ایسی کوششیں ملک اور سماج کے لئے سودمند ثابت نہیں ہوسکتیں اور اس کا سب کو اعتراف کرنا چاہئے۔
جو صورتحال ملک بھر میں ہے وہ امن و آشتی اور بھائی چارہ کو فروغ دینے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مستحکم کرنے کے لئے انتہائی سازگار ہے۔ اس طرح کے ماحول میں اختلافی اور نزاعی مسائل کو اُچھال کر ماحول کو خراب کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ان کوششوں کے پس پردہ جو محرکات اور عزائم ہیں ان کو پورا ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔ نفاذ قانون کے ادارے ہوں یا حکومت ہو سبھی کو اس بات کا نوٹ لینا اور تمام تر احتیاطی اقدامات کرنا چاہئے، خاص طور پر ملک کے عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے اس طرح کے عناصر کو ان کے منصوبوں کی تکمیل میں کامیاب ہونے کا موقع فراہم نہ کریں۔