مساجد ‘مدرسے اور داڑھی

   

دن رات زندگی نے لیا ہے ہم سے انتقام
کچھ انتقام لے نہ سکے زندگی سے ہم
مساجد ‘مدرسے اور داڑھی
مرکز کی نریندر مودی حکومت ہو یا پھر ملک کی مختلف ریاستوں میں قائم بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ہوں سبھی کے پاس ایسا لگتا ہے کہ ملک کے عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کوئی ترقیاتی اور فلاحی کام نہیں ہیں بلکہ ایسے اقدامات ہیں جن کی وجہ سے عوام کو مشکلات اور انتہائی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو اـ‘ شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں صرف متنازعہ مسائل کو ہوا دینے اور اختلافات کو فروغ دینے کے سواء کوئی اور کام نہیں کر رہی ہے ۔ابتداء سے آخر تک صرف متنازعہ مسائل کو ہوا دینے کی کوششیں ہی کی جا رہی ہیں۔ ہندوستان بھر میں سارے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ بابری مسجد مسئلہ پر سیاست کرتے ہوئے بی جے پی نے سارے ملک میں فرقہ پرستی کی لہر کو عام کردیا ہے ۔ بابری مسجد کا مسئلہ جیسے ہی اختتام کو پہونچا ہے دوسرے مسائل کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مختلف گوشوں سے متھرا اور کاشی کی مساجد کو نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ بتدریج دوسری مساجد کو بھی نشانہ بنانے کے منصوبے تیار کرلئے گئے ہیں۔ ابھی یہ تیاریاں حالانکہ ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن آسام میں دینی مدارس کو نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا ہے اور یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ وہاں آئندہ مہینے تک مدرسوں کو بند کردیا جائیگا ۔ مختلف زر خرید ٹی وی چینلوں کو استعمال کرتے ہوئے دینی مدارس کو رسواء اور بدنام کرنے کی کوشش میں شدت پیدا کرتے ہوئے مدرسوں کو بند کرنے کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ابھی اس مسئلہ پر ملک بھر میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے ایسے میں آدتیہ ناتھ کے اقتدار والی ریاست اترپردیش میںاب داڑھی کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کردیا گیا ہے اور ایک سب انسپکٹر پولیس کو محض اس لئے معطل کردیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے چہرے پر داڑھی رکھی تھی ۔ باغپت کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں داڑھی رکھنے پر نوٹس بھی دی گئی تھی لیکن انہوں نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا اس لئے انہیں معطل کردیا گیا ہے ۔ یہ عذر ایسا ہے جسے کوئی بھی حقیقت پسند انسان قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا ۔
یہ در اصل ایک سب انسپکٹر کی بات نہیں ہے بلکہ سارے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی بات ہے چاہے وہ داڑھی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔ یہ بی جے پی کے عزائم و منصوبے ہیں جن کی بنیاد پر وہ اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس کے پاس عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے کوئی ایسا منصوبہ یا کام نہیںہے جس کے ذریعہ وہ عوام سے دوبارہ ووٹ یا تائید حاصل کرسکے ۔ کسی ایک ریاست میں بھی بی جے پی صرف اشتعال انگیز نعرہ بازی ‘فرقہ وارانہ منافرت یا ہندو مسلم یا پھر پاکستان کا نام استعمال کئے بغیر انتخابات کا سامنا نہیں کرسکتی ۔ دفعہ 370 کا حوالہ دئے بغیر بی جے پی کے پاس کوئی اور ترقیاتی کام نہیں رہ گیا ہے جس کو وہ عوام کے سامنے پیش کرسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وقفہ وقفہ سے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت کو پھیلانے میں مصروف رہتی ہے اور ایسے کام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے عزائم کو آگے بڑھایا جاسکے ۔ اب جبکہ سارا ملک کورونا کی وجہ سے پریشان ہے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے سی اے اے پر عمل آوری جلد ہی شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک طرح سے بی جے پی کے خلاف پیدا ہونے والی عوامی ناراضگی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے ۔ یہ بی جے پی کیلئے اقتدار حاصل کرنے اور اقتدار پر برقرار رہنے کے ہتھیار بن کر رہ گئے ہیں۔ عوام کے مسائل اور ان کی تکالیف یا پھر بے روزگاری جیسے مسائل سے بی جے پی کا کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے اور نہ بی جے پی یا مرکزی حکومت کے پاس ان مسائل کے حل کا کوئی راستہ ہے ۔
اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت تو دستوری اور قانونی تمام گنجائشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف فرقہ پرستی اور منافرت پر اپنے کام چلا رہی ہے ۔ کبھی لو جہاد کا نعرہ دیا جاتا ہے تو کبھی بیف کھانے یا بڑے جانوروں کے ذبیحہ کے مسئلہ پر مسلمانوں کا قتل کیا جاتا ہے ۔ کبھی مدرسوں کو بند کرنے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی مسلمانوں کو رائے دہی کے حق سے محروم کرنے کا نعرہ دیا جاتا ہے ۔ اب مسلمانوں کی داڑھی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور داڑھی رکھنے پر انہیں ملازمت سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے ملک میں بدامنی اور نراج پیدا ہوسکتا ہے لیکن بی جے پی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ ملک کے انصاف پسند اور فکرمند شہریوں کو اس کا نوٹ لینے اور بی جے پی کے عزائم کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔