مساجد کا شکوہ ! بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بارے میں ہوئے فیصلے کے تناظر میں

   

مکہء مکرمہ میںغارِ حرا سےاسلام کا نور چمکا‘اس کی وادیوں سےنکل کر مدینہ منورہ پہنچااور اس کی روشنی سارے عالم میں پھیلی پھر کیا تھا ہم (مساجد)آباد ہوگئیںہماری وسعتیں تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگیں۔سجدوں سے ‘تلاوت قرآن سے ذکر و فکر سے آبادرہیں‘ صدر اسلام میں پھراس کے بعد برسوں جہاں ہم نماز و عبادت ادا کرنے اور جبین نیاز کو بارگاہ ایزدی میں خم کرنے کیلئے تھیں وہیں علوم و فنون کے ایسے مراکز تھیں جن کی شعاعیں حال و ماحول کو روشن و منور کرتی ہوئی سارے عالم کے اُفق پر چھاگئیں‘اور انسانی دلوں کو روشن و منور کرتی چلی گئیں‘ ایمان والو !اس بات کو اچھی طرح سنو اور ذہن نشین کرو کہ ایمان کی راہوں پر چلنے اور مساجد کو اسلام کی روح کے مطابق آباد رکھنے کیلئے علم کی بڑی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلی وحی میں علم و قلم کا ذکر فرمایا‘ایک مرتبہ رسول رحمت معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے‘دو حلقے چل رہے تھے ایک حلقہ ذکر و اذکار کا اور دوسر ا تعلیم و تعلم (سیکھنے سکھانے )کا آپ ﷺ نے فرمایا کہ دونوں خیر پر ہیں پھر آپ ﷺ دوسرے (علم کے ) حلقہ میں تشریف فرماہوگئے اور فرمایا ’’میں معلم بناکر بھیجاگیا ہوا’’انماانابعثت معلما‘‘۔اس اہمیت کے پیش نظر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد میں علم کا اہم ترین مرکز ’’صفہ‘‘ قائم ہوا ‘حدیث پاک سے بھی اس کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے ۔تقویٰ و پرہیزگاری ‘صبر و قناعت ‘توکل علی اللہ کے پیکر جمیل کئی ایک اصحاب رسول ﷺ جہاںصرف کتاب و سنت کی جواہر پاروں سے اپنے سینوں کو مستنیرکرنے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺسے اکتساب فیض کیا کرتے فقرو فاقہ ‘مسکنت و احتیاج ‘کی انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی۔بندگی و عبدیت کی پسندیدگی نے انہیں اللہ سبحان و تعالیٰ کا پسندیدہ و مقرب بندہ بنادیا تھا‘اس عظیم درس گاہ سے قیمتی ہیرے جواہرات سے کہیں زیادہ قدر و منزلت رکھنے والی عظیم شخصیات امت کو میسر آئیں‘جن کی حیات طیبہ کے درخشاںپہلو امت ہی کیلئے نہیں بلکہ ساری انسانیت کیلئے ہدایت کے آسمان پر ستاروں کے مانند جگمگارہے ہیں۔ان میں سلمان فارسی ‘ عمار بن یاسر ‘ ابوذر غفاری بلال بن رباح‘عبداللہ بن مسعود ‘ ابوعبیدہ بن الجراح ‘ابوہریرہ وغیرہ اور ایسے کئی باکمال صحابہء کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔پھر جہاں جہاں اسلام کی روشنی پھیلی وہاں وہاںہماری (مسجدوںکی)تعمیر عمل میں آتی رہی۔نماز و عبادت کے ساتھ تعلیم و تعلم کا سلسلہ بھی جاری رہا ‘جب تک امت مسلمہ علوم و فنون کو سینے سے لگائے رہی سرخرو و سربلند رہی اور جب سے علم و فن سے رشتہ ٹوٹا ہے ذلت و نکبت پستی و خواری گلے کا ہار بن گئی ہے ۔ہم (مساجد)سماج میں رہنے بسنے والوں کیلئے عدالت عالیہ کا درجہ رکھتی تھیں‘کیا مسلم کیا غیر مسلم سب کے آپسی نزاعات ہمارے ہاں حل ہوتے ’’ارشاد باری ‘‘اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف رونما ہوتو تم اس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرو‘کے ہم عملی پیکر تھے۔لیکن آج افسوس اس بات کا ہے کہ ہم (مساجد) سے نسبت رکھنے والے پراگندہ ومنتشر ہیں ‘کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں‘ غیر مسلموں کے نزاعات کے حل کی بات تو رہی دور آپسی اختلافات کتاب و سنت کی روشنی میں حل کیلئے مسجد میں جمع ہونے یہ امت تیار نہیں ہے ۔اس سے زیادہ ملول و رنجیدہ کرنے والی بات تو یہ ہے کہ اس امت نے ہم (مساجد ) کو غیر مسلم عدالتوں میں پہنچادیا ہے ۔ بات بات پر یہ امت خواہ و چھوٹی ہو کہ بڑی پولیس تھانوں اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکٹھانے لگی ہے ۔انتظامی جھگڑے ‘ مسلکی جھگڑے اپنی انا و بڑائی کے جھگڑے اور نہ جانے کیا کیا جھگڑے ہیںجس کا اس امت کو کوئی احساس نہیں ہے ‘باوجود یہ کہ سارا عالم اپنے مذہبی معاشی و معاشرتی سارے جھگڑوں کو بھلا کر اسلام و مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکا ہے ۔پھر بھی یہ امت کلمہ کی بنیاد پر متفق ہونے تیار نہیں ہے ۔ہمارا تم سے یہ سوا ل ہے: یو ںتو سید بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغا ن بھی ہو ‘ تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
ہماری حرمت و تقدیس کی اس طرح پامالی کیا رب تبارک وتعالیٰ کو گوارہ ہوسکتی ہے؟اس طرح مسجدوں کی بے احترامی سے کیا امت مسلمہ کے احترام و وقار میں کوئی اضافہ ہوسکتا ہے؟ ایمان کا نور جن کے سینوں کا مقدر بنا‘جتنا زیادہ جن کا سینہ نور ایمانی سے منورہوتا گیا اتنا زیادہ وہ ہم سے محبت کرنے لگے ‘وہ حدیث پاک جس میں حشر کے دن (سات) /۷طرح کے افراد کے عرش کے سایہ میں جگہ پانے کی خوشخبری سنائی گئی ہے اس ارشاد نبوی ﷺ میں ’’ وقلبہ معلق بالمساجد ‘‘بھی ہےایمان والوں نے اس کو ایسے حرز جاں بنایا کہ دنیا جہاں میں کہیں بھی رہیں ہماری محبت و عظمت سے اپنے سینوں کو آباد رکھا‘دنیا کے مشاغل ‘تجارت و کاروبار ‘ خاندانی و عائلی زندگی ‘معاشی و معاشرتی مسائل نے کبھی ان کو ہم سے غافل نہیں کیا ’’دل بیار دست بکار ‘‘کے مصداق وہ گھربار چلاتے رہے‘رزق حلال کیلئے ‘کسب معاش کے جائز ذرائع اختیار کرتے ہوئے حلال و طیب رزق و روزی کا اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے بندوبست کرتے رہے‘لیکن کبھی ایسا نہیں ہواکہ وہ ہم کو کسی لمحہ بھول گئے ہوں‘ وہ ہمیشہ خوف الہٰی و خوف آخرت سے لرزاںو ترساں رہتے ‘یہی وجہ ہے کہ سماج و معاشرہ میں امن و امان تھا‘چین و سکون تھا‘ گھر گھر راحتیں ‘ رحمتیں تھیں‘ چونکہ حدیث پاک میں وارد ہیں زمین والوں کیلئے جیسے آسمان پر چاند و سورج روشن وتاباں ہیں‘ستارے جھلملارہے ہیں اور اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں‘آسمان والوں کوہم ( مساجد ومراکزکتاب وسنت ) ایسے ہی نور و روشنی بکھیرتے نظر آتے ہیں‘یہ بھی حدیث پاک میں ہے‘جن جگہوں میں خواہ وہ مساجد ہوںیا مراکز علوم اسلامی ‘یا ذکر و فکر کی مجالس رحمت کے فرشتے ان کا احاطہ کرلیتے ہیں‘رحمت الہٰی ان کو ڈھانپ لیتی ہے‘ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے ‘ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کا تذکرہ فرشتوں کی جماعت میں فرماتے ہیں ۔یہ رحمتیں برکتیں اور وہاں نازل ہونے والی سکینت ان مساجد و مجالس کے علاوہ قرب وجوار کےحال و ماحول کو بھی فیض یاب کرتی۔ ساری دنیا میں ہم (مساجد)اربوں کھربوںکی تعداد میں ہیں جو کرہ ارض کیلئے باعث رحمت و سکینت ہیں ۔ہماری قدر و منزلت میں مسلمانوں ہی کی نہیں غیر مسلموں کی بھی قدر ومنزلت کا راز پنہاں ہے ‘ یہ اور بات ہے کہ ایمان والوں کی دونوں جہاں میں قدر افزائی ہوگی ‘ جو ایمان کی نعمت سے محروم ہیں‘بشرطِ انسانیت و شرافت وبشرط احترام ِ (مساجد) دنیا کی نعمتوں و راحتوں سے ضرور نوازے جائیں گے۔ ہماری اتنی فضیلت نبی رحمت ﷺ نے بیان فرمائی کہ اس کی کوئی حد و انتہا نہیں ‘ایک بندئہ مومن جو جو چاہتا ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خزانہ غیب سے سب کچھ اس کو مل جاتا ہے ‘ارشاد ہے جو کوئی فرض نماز ادا کرنے اپنے گھر سے وضو کرے اور نمازادا کرنے کیلئے مسجد چل پڑے جبکہ اس کی کوئی اور غرض نہ ہوتو مسجد جانے تک ہر قدم پر اس کا مرتبہ و رتبہ ایک درجہ بلندہوجاتا اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے ‘ اور اس کا اتنا اجر و ثواب ہے جتنا احرام باندھ کرحج کیلئے گھر سے نکلنے والے کا ہے‘ باوضو نماز اشراق ادا کرنے کی غرض سے مسجد جائے اس کا ثواب عمرہ ادا کرنے جیسا ہے ‘ جب مسجد پہنچ جائے جب تک جماعت کے انتظار میں رہے اس کو نماز ہی کا ثواب ملتا رہے گا اور فرشتے اس کے حق میں دعا کرتے رہیں گے ’’اے اللہ اس پر رحمت نازل فرما ‘ اور اس کی بخشش و مغفرت فرما ‘‘ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار بشرطیکہ وہ ان دونوں نمازوں کے درمیان کسی اور کام کاج اور بات چیت میں مشغول نہ ہو ‘ اس کو علیین میں لکھ لیا جاتا ہے ۔ہم (مساجد ) خاص طور پر ایمان والوں اور ان کے گھرانے والوںکیلئے حفاظت کا حصار ہیں ‘اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کے سارے امور کے کفیل و کارساز بن جاتے ہیں ۔ ہماری زبان حال سے ہماری اور فضیلت سننا چاہو تو سنو اور سنتے جائوکیا کیا انوار و برکات ہیں ان کو اپنے دامن میں سمیٹتے جائو ‘ارشاد ہے !جو اللہ سبحان و تعالیٰ سے محبت رکھنا چاہے اس کو چاہئے کہ مجھ سے محبت کرے ‘ اور جو مجھ سے محبت کرنا چاہے اس کو چاہئے کہ میرے صحابہ سے محبت کرے اور جو صحابہ سے محبت رکھنا چاہئے اس کو چاہے قرآن مجیدسے محبت کرے اور جو قرآن مجیدسے محبت رکھنا چاہے اس کو چاہئے کہ مساجد سے محبت کرے ‘ کیونکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے گھر ہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی تعظیم کا حکم دیا ہے ‘ان میں برکت رکھی ہے وہ بھی بابرکت ہیں اور ان میں رہنے والے بھی وہ بھی اللہ کی حفاظت کے حصار میں ہیں اور ان کے رہنے والے بھی‘ یہ اپنی نمازوں میں مشغول رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے کام بناتے اور حاجتیں پوری فرماتے ہیں۔ وہ مساجد میں ہوتے ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کے پیچھے ان کے سارے معاملات کی محافظت فرماتے ہیں ۔(قرطبی ) کرئہ ارض پر ہمارا (مساجدکا) مقام ایسا ہی ہے جیسے انسانی جسم میں قلب کا ‘اسلامی و روحانی حیات کیلئے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ مساجد کا مقام و مرتبہ ہے جس طرح قلب کی صحت و کارکردگی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ‘اسی طرح مسلم سماج میں مساجد کی اہمیت ہے نبوی نہج پر مساجد کی اصلاح و درستگی کے بغیر اسلامی معاشرہ کی درستگی ناممکن ہے ۔ ایمان والوں سے ہماری دلی خواہش ہے ہم سے محبت رکھیں ‘اللہ سبحانہ کی چاہت کے مطابق اپنا تعلق ہم سے جوڑے رہیںاور ساری انسانیت تک ہمارا یہ پیغام پہنچائیں۔