مساجد کی شہادت کے باوجود مسلم قائدین سرکاری تنخواہ کے ساتھ عہدوں پر برقرار

,

   

ٹی آر ایس کی تائید پر سرکاری عہدوں کا تحفہ ، عوام میں برہمی ، فورم کے ذمہ داروں کی بے حسی

حیدرآباد : سکریٹریٹ کے احاطہ میں دو مساجد کی شہادت کے مسئلہ پر حکومت کی تائید کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی بے حسی نے مسلمانوں میں برہمی کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کے نام پر دو مساجد کو شہید ہوئے تقریباً ایک ماہ مکمل ہونے کو ہے لیکن قیادت کے دعویداروں نے آج تک حکومت پر دباؤ بنانے کیلئے کسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا ہے۔ یہ وہی جماعتیں ہیں جنہوں نے اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے موقع پر نہ صرف ٹی آر ایس کی تائید کی بلکہ اضلاع میں گھوم کر ٹی آر ایس کے حق میں مہم چلائی تھی۔ حکومت کی حلیف مقامی جماعت مجلس ہو یا پھر مختلف مذہبی تنظیموں پر مشتمل فورم ان دونوں کے علاوہ بعض مذہبی جماعتوں میں انفرادی طور پر ٹی آر ایس اور کے سی آر کی تائید میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی۔ حکومت کی گودی تنظیموں کی طرح یہ تنظیمیں اور جماعتیں مسجد کی شہادت پر صرف بیان بازی پر اکتفا کر رہی ہیں۔ ہر دو روز میں مساجد کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کرتے ہوئے اردو میڈیا کے لئے ایک بیان جاری کردیا جاتا ہے ۔ مساجد کی بازیابی اور دوبارہ تعمیر کیلئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ اللہ کے گھروں کی حفاظت کے لئے دنیاوی عہدوں کی قربانی سے گریز کیا جارہا ہے ۔ سرکاری عہدوں پر فائز رہتے ہوئے لاکھوں روپئے بطور تنخواہ اور الاؤنسیس حاصل کئے جارہے ہیں جو کہ ٹی آر ایس حکومت کے خزانہ سے ادا کئے جاتے ہیں۔ عوام کا احساس ہے کہ اگر واقعتاً مسلم قیادت کو مساجد کا تحفظ عزیز ہوتا تو وہ کم سے کم اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجاتے۔ ایک طرف عہدوں پر برقرار رہتے ہوئے حکومت سے تنخواہ حاصل کر رہے ہیں تو دوسری طرف مسجد کے نام پر برائے نام حکومت کی مخالفت جاری ہے ۔

مقامی جماعت کے 7 ارکان اسمبلی ، 2 ارکان قانون ساز کونسل ، جی ایچ ایم سی میں 45 کارپوریٹرس ، وقف بورڈ میں تائیدی سمیت 5 ارکان ، یونائٹیڈ مسلم فورم کے صدر کو سرکاری ادارہ اردو اکیڈیمی کے صدرنشین کا عہدہ ، تلنگانہ حج کمیٹی میں مقامی جماعت کے رکن کے علاوہ اضلاع میں کارپوریشنوں ، میونسپلٹیز میں کارپوریٹرس اور ارکان بلدیہ کی قابل لحاظ تعداد موجود ہے۔ اگر یہ تمام بیک وقت اپنے عہدوں سے استعفی دے دیں تو یقینی طور پر حکومت پر دباؤ بنے گا اور وہ مساجد کی موجودہ مقامات پر دوبارہ تعمیر کے لئے تیار ہوسکتی ہے ۔ کوئی بھی مقصد جدوجہد اور قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ حکومت سے 2 تا 3 لاکھ روپئے ماہانہ تنخواہ کے لالچ نے مقامی جماعت اور فورم کے ذمہ داروں کو مجہول بنادیا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے جذبات کا کوئی لحاظ نہیں۔ مساجد کی بحالی سے زیادہ انہیں عہدوں سے چمٹے رہنے میں دلچسپی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بیان بازی کے ذریعہ مساجد کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کب تک جاری رہے گا۔ بابری مسجد کے معاملہ میں بھی یہ مطالبہ کیا جاتا رہا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور آخر کار مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کیلئے بھومی پوجا منعقد کی گئی۔ جہاں تک عہدوں سے استعفی کا سوال ہے حیدرآباد کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس وقت کے رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے استعفیٰ نہیں دیا تھا حالانکہ وہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے صدر تھے ۔ سکریٹریٹ کی دونوں مساجد کے مسئلہ پر مقامی جماعت اگر صرف بیان بازی تک محدود رہے گی تو اسے عوامی برہمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ مجلس کو انتخابات میں ٹی آر ایس کی تائید کے صلہ میں قانون ساز کونسل کی دو نشستیں تحفے میں حاصل ہوئی ہیں۔ تلنگانہ وقف بورڈ میں مقامی جماعت کے تائیدی تین ارکان ہیں جبکہ ایک رکن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے جس نے انتخابات میں ٹی آر ایس کی تائید کی تھی۔ حج کمیٹی میں مقامی جماعت اور حکومت کی تائید پر جمعیت علماء کو ایک ایک نمائندگی دی گئی۔ جمعیت علماء کے ایک نمائندہ کو کھادی اینڈ ولیج بورڈ کا صدرنشین مقرر کیا گیا تھا۔ جس فورم کو مساجد کے تحفظ کی جدوجہد کرنی ہے، اس کے صدر سرکاری عہدہ پر فائز رہتے ہوئے ماہانہ دو لاکھ روپئے تنخواہ حاصل کر رہے ہیں۔ اکیڈیمی کے دفتر میں وہ حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے ہیں اور کے سی آر کی ستائش کی جاتی ہے جبکہ فورم کے صدر کی حیثیت سے ان کا بیان حکومت کی مخالفت میں ہوتا ہے۔ مقامی جماعت اور دیگر مذہبی جماعتوں کے ذمہ داروں کے دوہرے موقف پر عوام کی گہری نظر ہے۔ جو قائدین عہدوں کی قربانی کیلئے تیار نہیں ہوسکتے، ان سے مساجد کے تحفظ کی امید کرنا فضول ہوگا۔