مسلمانوں کو نشانہ بنانا شہریت ترمیمی بل کا مقصد

,

   

نا انصافی اور حق تلفی کے خلاف آواز اٹھانا ضروری
ملک میں سیاسی سرکس کا سلسلہ جاری ، گوپی ناتھن آئی اے ایس سے بات چیت
مسٹرگوپی ناتھن نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ حکومت جو بھی عوام دشمنی اقدامات کرتی ہے اس کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ خاص طور پر مسلمان اگر آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو پھر ایک ایسا وقت آئے گا جہاں آپ پھر آواز نہیں اٹھا سکیں گے بلکہ آپ کو ہاتھ جوڑنا پڑے گا ۔

حیدرآباد ۔ 26 ۔ نومبر : ( سیاست نیوز) : ہندوستان میں آج جو کچھ ہورہا ہے وہ سیاسی سرکس ہے ملک میں دستور اور جمہوریت کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے اور جہاں تک این آر سی کا سوال ہے اس کے ذریعہ صرف اور صرف غریبوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ جن میں مسلمان ، دلت اور قبائل سرفہرست ہیں جب کہ شہریت ترمیمی بل CAB کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں نا انصافی اور حق تلفی کا جو سلسلہ جاری ہے اس پر عوام بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور عوام کی یہ خاموشی نہ صرف عوام بلکہ ہمارے وطن عزیز کے لیے خطرناک ثابت ہوگی ۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید ابتر ہوں اور ملک کو نقصان پہنچے عوام کو اپنی خاموشی توڑنی چاہئے اور حکومت کو ایسے اقدامات سے روکنا چاہئے جو کسی بھی طرح ہمارے وطن عزیز کے مفاد میں نہ ہوں ۔ ان خیالات کا اظہار نمائندہ سیاست سے خصوصی بات چیت میں مسٹر کنان گوپی ناتھن آئی اے ایس نے کیا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نریندر مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کو حاصل خصوصی موقف منسوخ کرنے اور پھر کشمیر میں سیاسی قائدین و عوام پر عائد متعدد پابندیوں بالخصوص مواصلاتی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کنان گوپی ناتھن نے 23 اگست 2019 کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا تھا جو آج تک حکومت نے قبول نہیں کیا ۔ کنان گوپی ناتھن کے مطابق عوام کو پابندیوں کا شکار بناتے ہوئے ان کے اظہار خیال کی آزادی سلب کرتے ہوئے کوئی بھی حکومت ان کے دل نہیں جیت سکتی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو حکومت کے حامی ہیں وہ تو خوشیاں منا رہے تھے اور جو کشمیر سے متعلق فیصلہ سے متفق نہیں ہیں وہ بڑی خاموشی سے یہ سب کچھ تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ ایک سوال کے جواب میں کنان گوپی ناتھن کا کہنا تھا کہ آج ہمارے سیاسی قائدین نوجوان ، بوڑھوں ، خواتین ، دانشوروں ، صحافیوں ، ادیبوں اور زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ ماہرین کو حق تلفی و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے ورنہ ان کی خاموشی ملک کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے ۔ کیرالا سے تعلق رکھنے والے کنان گوپی ناتھن نے بحیثیت آئی اے ایس آفیسر 7 سال خدمات انجام دیں اور دادر و ناگر جوبلی میں خدمات انجام دینے کے دوران انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا ۔ واضح رہے کہ کنان گوپی ناتھن کے استعفیٰ کے بعد 2009 کرناٹک کیڈر کے آئی اے ایس عہدیدار ششی کانت پنتھل نے بھی ملک کے موجودہ حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دیدیا تھا ۔ اس طرح یہ دونوں آئی اے ایس آفیسرس ہرش مندر اور ارونا رائے جیسے آئی اے ایس عہدیداروں کی فہرست میں شامل ہوگئے ۔ جنہوں نے حکومتوں کی نا اہلی ظلم و جبر کی پالیسیوں اور فرقہ وارانہ فسادات ( مابعد گودھرا گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام ) کے خلاف استعفیٰ دئیے تھے ۔ مسٹر گوپی ناتھن کے مطابق عوام جب تک خاموش رہے گی اس کا ہر طرح سے استحصال ہوتا رہے گا ۔ آسام میں این آر سی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آسام میں این آر سی کا عمل مکمل کرنے کے لیے 6 سال کا عرصہ درکار ہوا ۔ 1600 کروڑ روپئے کے سرکاری مصارف آئے ۔ غریب عوام نے اپنے دستاویزات درست کرنے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 8000 کروڑ روپئے خرچ کر ڈالے اس کے باوجود 3.3 کروڑ لوگوں میں سے زائد از 19 لاکھ لوگوں کے نام این آر سی سے حذف کیے گئے یہاں بات آسام کے 3.3 کروڑ عوام کی نہیں بلکہ 13 کروڑ عوام کو بھی اس کا نشانہ بنایا جائے گا اور برسوں تک یہ تماشہ جاری رہے گا ۔ یہ عمل صرف اور صرف خوف و دہشت پیدا کرنے کے لیے کیا جارہا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کی نظر میں این آر سی نہیں بلکہ شہریت ترمیمی بل خطرناک ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے ۔ مسٹرگوپی ناتھن نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ حکومت جو بھی عوام دشمنی اقدامات کرتی ہے اس کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ خاص طور پر مسلمان اگر آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو پھر ایک ایسا وقت آئے گا جہاں آپ پھر آواز نہیں اٹھا سکیں گے بلکہ آپ کو ہاتھ جوڑنا پڑے گا ۔ نمائندہ سیاست سے بات چیت کے بعد کنان گوپی ناتھ نے ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں سے ملاقات کی ۔ منیجنگ ایڈیٹر جناب ظہیر الدین علی خاں اور نیوز ایڈیٹر جناب عامر علی خاں بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ کنان گوپی ناتھن نے سیاست کی سماجی ملی و قومی خدمات کی بھی ستائش کی ۔۔