مسلمان اپنی طاقت کو پہچان، تلنگانہ کو فرقہ پرستی سے بچانے ووٹ کا استعمال کریں

   

47 اسمبلی اور 10 لوک سبھا حلقوں میںفیصلہ کن موقف ، متحدہ رائے دہی اور ووٹ فیصد میں اضافہ ضروری ، تلنگانہ پر سنگھ پریوار کی بری نظریں

حیدرآباد ۔ 15 ۔ اپریل (سیاست نیوز) ملک میں لوک سبھا انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور گزشتہ کئی انتخابات کے مقابلہ جاریہ الیکشن غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کی شکست اور کامیابی عوام کے فیصلہ پر منحصر ہوتی ہے اور حقیقی معنوں میں جمہوریت کے بادشاہ گر رائے دہندے ہیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں جاریہ الیکشن کو اہمیت اس اعتبار سے بھی زیادہ ہے کہ اس مرتبہ جمہوریت اور دستور کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں تک مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈہ پر کھلے عام عمل کرتے ہوئے ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے ۔ سیکولر اور جمہوری طاقتیں اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ متحدہ مقابلہ کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کو ناکام بنایا جائے تاکہ جمہوریت اور دستور کا تحفظ ہو۔ ملک میں سنگھ پریوار نے عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل کے ذہن میں نفرت کا زہر کچھ اس طرح گھول دیا ہے کہ اسے بآسانی ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ جاریہ لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو شکست دے کر ملک کو بچایا جاسکتا ہے۔ سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی مدد ضروری ہے ۔ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت کے علاوہ دوسری بڑی اکثریت کا درجہ رکھتے ہیں اور اگر مسلمان الیکشن میں شعور کا مظاہرہ کریں تو فرقہ پرستوں کو شکست دینا آسان ہوجائے گا۔ جہاں تک تلنگانہ کی سیاست کا تعلق ہے، بی جے پی اور سنگھ پریوار نے پہلی مرتبہ تلنگانہ پر یلغار کردی ہے تاکہ 10 لوک سبھا نشستوں پر قبضہ جمایا جاسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کے نشانہ پر وہی لوک سبھا حلقے ہیں جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے ۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوچکا ہے کیونکہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کو اندازہ ہے کہ مسلمان بھلے ہی 10 لوک سبھا حلقوں میں فیصلہ کن موقف میں ہیں لیکن ان میں شعور کی کمی ہے جس کا راست طور پر فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے۔ مسلم رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کی ضرورت ہے تاکہ فرقہ پرست طاقتوں کو تلنگانہ میں قدم جمانے سے روکا جاسکے۔ گزشتہ کئی انتخابات کی تاریخ گواہ ہے کہ رائے دہی کے معاملہ میں مسلمانوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ مسلم رائے دہی کو تقسیم کرنے میں فرقہ پرست طاقتیں ہمیشہ کامیاب ہوجاتی ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کے درمیان جب مسلم ووٹ تقسیم ہوجائیں تو ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ تلنگانہ کے 119 اسمبلی حلقہ جات 47 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان جس امیدوار کو چاہے کامیاب بنانے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن افسوس مسلمانوں میں کبھی بھی اپنی طاقت کا متحدہ طور پر مظاہرہ نہیں کیا۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 13 فیصد ہے اور وہ 10 لوک سبھا حلقوں میں سیکولر امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بناسکتے ہیں۔ تلنگانہ کی موجودہ سیاسی صورتحال میں اصل مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔ گزشتہ 10 برسوں تک برسر اقتدار رہنے والی بی آر ایس اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کا انحصار مسلم رائے دہندوں پر ہے لیکن اس مرتبہ مسلمانوں کو اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے مضبوط سیکولر پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی ضرورت ہے ۔ کانگریس اور بی آر ایس کے مقابلے بی جے پی کو شکست دینے کی صلاحیت اور طاقت صرف کانگریس میں ہے ، لہذا تلنگانہ کے مسلم رائے دہندوں کو اپنی طاقت کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے فرقہ پرستوں کو ریاست میں قدم جمانے سے روکنا ہوگا۔ بی جے پی کو گزشتہ چناؤ میں چار لوک سبھا حلقوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور اسمبلی میں وہ 8 نشستوں تک پہنچ گئی ۔ 8 نشستوں پر کامیابی ظاہر ہے کہ بی جے پی کی نفرت کی سیاست کے پھیلاؤ کا بین ثبوت ہے۔ بی آر ایس بھلے ہی سیکولر نظریات کی حامل ہو لیکن موجودہ حالات میں فرقہ پرست طاقتوں کو روکنا مسلمانوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ اگر بی جے پی 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی ہے تو تلنگانہ میں مسلمانوں کے لئے روزانہ نت نئے مسائل پیدا کئے جائیں گے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سنگین خطرہ لاحق ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں شہری علاقوں میں مسلم رائے دہندوں نے بی آر ایس کی تائید کی تھی اور بی آر ایس کو 20 اسمبلی حلقہ جات میں مسلم رائے دہندوں کی تائید سے کامیابی حاصل ہوئی ۔ مجلس 7 نشستوں پر مسلم ووٹ کی بنیاد پر کامیاب رہی ۔ ایک اندازہ کے مطابق تلنگانہ میں مسلم اقلیت کی آبادی تقریباً 54 لاکھ ہے اور حیدرآباد میں 17.13 لاکھ مسلمان ہیں۔ عیسائی طبقہ کی آبادی تقریباً 5 لاکھ ہے اور عیسائی طبقہ حیدرآباد ، رنگا ریڈی ، میڑچل اور میدک اضلاع تک محدود ہے۔ اسمبلی چناؤ میں دیہی علاقوں میں مسلم رائے دہندوں میں متحدہ طور پر کانگریس کی تائید کی تھی جس کے نتیجہ میں پارٹی کو 65 نشستوں کے ساتھ اقتدار حاصل ہوا۔ اب جبکہ تلنگانہ میں رائے دہی 13 مئی کو مقرر ہے، لہذا مذہبی اور سماجی تنظیموں کے علاوہ جہد کاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کو ووٹ کی اہمیت سے واقف کرائیں۔ مسلم رائے دہندوں کو ان کی طاقت کا اندازہ کرایا جائے تاکہ انتخابات کے جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے اپنے وجود کو مستحکم کرسکیں۔ لوک سبھا چناؤ میں مسلم ووٹ فیصد میں اضافہ اور سیکولر امیدوار کے حق میں متحدہ رائے دہی کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کے نشانہ پر موجودہ لوک سبھا حلقوں میں سکندرآباد ، ملکاجگری ، محبوب نگر ، چیوڑلہ ، ظہیر آباد ، نظام آباد ، عادل آ باد ، کریم نگر ، میدک اور ناگر کرنول شامل ہیں۔1