مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے

   

محمدمبشرالدین خرم
انسان فطری اعتبار سے آزاد ی پسند رہا ہے اور اگر انسان پر غلامی مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اپنی قوت کے مطابق اس تسلط کو برداشت کرتا ہے لیکن جب قید و بند کے ساتھ مظالم حد سے تجاوز کرجاتے ہیں تو مظلوم اس فیصلہ کے ساتھ حملہ آور ہوجاتا ہے کہ یا غلامی سے آزادی حاصل کی جائے یا زندگی سے آزادی حاصل ہوجائے۔اکثر کہا جاتا ہے کہ اگر بند کمرے میں بلی پر حملہ کیا جائے اور اسے فرار اختیار کرنے کے لئے کوئی راستہ نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں بلی بھی شیر کی طرح حملہ آور ہوجاتی ہے۔75 سال سے فلسطینی عوام اپنے حقوق آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ وہ کس طاقت کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ القدس کے تقدس اور اپنی زمین کے تحفظ کے لئے قربانیاں پیش کرتے رہے ہیں لیکن 80 فیصد سے زیادہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ اور فلسطین کے نام کو روئے زمین سے مٹانے کی بات کرنے والے اسرائیل نے اب غزہ پر قطعی جنگ مسلط کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ غزہ کے علاوہ مغربی کنارہ کے خاتمہ کے ساتھ مکمل فلسطین کو اپنے زیر تسلط کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے لیکن اس کا یہ خواب پورا ہونا ممکن نہیں ہے ۔گذشتہ ہفتہ کی صبح حماس کی اسرائیل کے خلاف کاروائی نے نہ صرف مظلوم فلسطینیوں اور غزہ کے مکینوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے بلکہ دنیا کے سیاسی جغرافیائی نقشہ میں تبدیلی کی سمت پیش قدمی شروع کردی ہے۔حماس کی اس کاروائی سے اسرائیل کو جو نقصان پہنچا ہے وہ محض جانی یا مالی نقصان نہیں ہے بلکہ سفارتی نقصانات کا اندازہ ابھی لگایا جانا ممکن نہیں کیونکہ کسی ملک نے سفارتی تعلقات تو منقطع نہیں کئے ہیں لیکن عرب دنیا کے انداز تخاطب میں تبدیلی محسوس کی جانے لگی ہے ۔مسجد اقصیٰ (القدس) قبلۂ اول جو کہ مسلمانوں کے لئے ریڈ لائن کے مترادف ہے اسے عبور کرنے کی اسرائیلی کوششیں اب کچھ وقت کے لئے ٹل جائیں گی ۔ اسرائیل بالخصوص صہیونی قوتیں عرب دنیاسے اسرائیل کے ہموار ہورہے تعلقات کی بنیاد پر یہ تصور کرنے لگ گئی تھیں کہ اب ان کا مسجد اقصیٰ کے متعلق ہدف دور نہیں لیکن حماس کی کاروائی نے اسرائیل کو اس کے حتمی نشانہ سے کافی دور کردیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری اس معرکہ آرائی میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ فلسطینیوں کی ہی شہادت نہیں ہوئی بلکہ اسرائیلی ہلاکتیں بھی اسرائیل نواز ممالک کو انگشت بدنداں کرنے کے لئے کافی ہیں۔ برسوں سے کھلی جیل میں قید غزہ کے شہری اور حماس جو کہ کسی بھی طرح کی سہولتوں سے لیس نہیں تھے نے اچانک کئے گئے ’’گوریلا‘‘ حملہ میں نہ صرف اسرائیلی صہیونیوں کو نشانہ بنایا بلکہ ’اسرائیل ڈیفنس فورس‘ جو کہ دنیا کی طاقتور ترین فوج تصور کی جاتی ہے اس کے سرکردہ عہدیداروں کو جنگی قیدی بنانے میں کامیابی حاصل کرلی جو کہ اسرائیل اور اس کی ہمنواطاقتوں کے لئے حیرت کا باعث ہے بلکہ دنیا کے ہر گوشہ نے حماس کی اس کاروائی کو حیرت انگیز قرار دینے کے ساتھ ساتھ حماس کو حاصل مدد کے متعلق قیاس آرائیاں شروع کردیں لیکن یہ بات اب تک ثابت نہ ہوسکی کہ اسرائیل پر حماس کے حملہ میں ایران‘ روس ‘ چین یا کسی اور ملک نے حماس کی مدد کی ہے۔ حماس کی کاروائی نے اسرائیل کے ’’آئرن ڈوم‘‘ کی قلعی کھولنے کے علاوہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگانے کے علاوہ دنیا بھر کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسرائیل ٹیکنالوجی کے نام پر دنیا بھر کو جس طرح سے اپنے خفیہ آلات فروخت کررہا ہے وہ بھی اسے بچا نہیں پائے ہیں۔ حماس کا شب خون اسرائیل کے سر پر خون سوار کرنے کا سبب بن چکا تھا اور اندرون چند گھنٹہ حکومت اسرائیل نے اس بات کا اعلان کردیا کہ وہ ’حالت جنگ‘ میں ہے۔ اسرائیل کے اس اعلان کے ساتھ ہی امریکہ نے اسے دفاعی امداد کی پیشکش کرتے ہوئے اپنے دیانتدار دوست ہونے کا ثبوت دیا تو فوری دیگر مغربی ممالک نے بھی حماس کے ’شب خون‘ کو دہشت گردانہ حملہ قرار دینا شروع کردیا جبکہ اعتدال پسند ممالک نے اس کاروائی کو فطری ردعمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب اسرائیل روزانہ فلسطینیوں کو نشانہ بناتا ہے اور غزہ پر عائد پابندیوں کے ساتھ زندگی گذارنے پر عوام کو مجبور کئے ہوئے ہے اس وقت یہ لوگ کہا ں تھے جو حماس کی کاروائی کو دہشت گردانہ قراردیتے ہوئے اسرائیل کے مظالم کو جائز قرار دینے میں مصروف ہیں۔
اسرائیل۔حماس کے درمیان جاری اس جنگ کے دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ بعض نام نہاد مسلمان جو اپنے چہرے پر داڑھی بھی رکھتے ہیں اور خود کو صوم و صلواۃ کے پابند بھی ظاہر کرتے ہیں وہ دراصل امت کے نہیں بلکہ اسرائیل کے دوست ہیں اور انہیں امت کو نقصان پہنچانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ معرکۂ کربلا کے دوران نواسۂ رسولﷺ سے دھوکہ کرنے والے کون تھے اگر ان کے چہرے دیکھنے ہوں توآج ان چہروں کو دیکھا جاسکتا ہے جو حکومت و ارباب اقتدار و طاقت کے جوتے چاٹنے کے لئے اپنے مذہبی و ملی فریضہ سے فرار اختیار کرنے میں بھی قباحت محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ حماس نے ایک کاروائی کے ذریعہ نہ صرف اپنے وجود کا احساس کروایا ہے بلکہ فلسطین کے متعلق دنیاکے نظریات کو برسرعام پیش کرنے کی راہ ہموار کی ہے اور جن چہروں پر نقاب پڑے ہوئے تھے انہیں الٹنے کا موقع فراہم کیا ہے تاکہ عالم اسلام اپنے حقیقی دوست اور دشمن کو پہچان سکیں۔ عرب دنیا کی اسرائیل سے بڑھ رہی قربت کو دیکھتے ہوئے کہا جارہا تھا کہ عرب حکمراں اب فلسطینیوں کے معاملہ میں کف لسان اختیار کریں گے لیکن حماس نے انہیں زبان کھولنے اور فلسطین و مسجد اقصیٰ پر بولنے کے لئے مجبور کردیا وگرنہ یہ تعلقات اس حد تک مستحکم ہوجاتے کہ عرب دنیا مکمل خاموشی اختیار کرلیتی جو کہ انتہائی خطرناک صورتحال کا سبب بن سکتا تھا ۔
اسرائیل کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اسرائیل کسی بھی جنگ میں 10 دن سے زیادہ برقرار نہیں رہ پایا ہے اور اس جنگ کے اب 9دن مکمل ہوچکے ہیں لیکن خاتمہ کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔ امریکہ اسرائیل کا کس قدردوست ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس جنگ کو بند کروانے کے بجائے اسرائیل کو ہتھیار اور دیگر جنگی سامان کی فراہمی کے ذریعہ اس کی مدد کررہا ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے خلاف عرب دنیا کے علاوہ ترکی ‘ شام‘ لبنان اور ایران نئے اتحاد کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اسرائیل کے خلاف اگر یہ اتحاد تشکیل پاتا ہے تو ایسی صورت میں اس اتحاد کو روس اور چین جیسی عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہونے کا امکان ہے جو کہ دنیامیں ایک نئے اتحاد کو جنم دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسرائیل جس انداز میں غزہ پر بم برسا رہا ہے اور جنگی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے اس پر انسانیت کی بقاء کے دعویدار اور حقوق انسانیت کی بات کرنے والے ممالک کی خاموشی دنیا کے لئے ایک پیغام دے رہی ہے اور اگر دنیا بھر میں انسانیت نواز عوام اس پیغام کو قبول کرتے ہیں توایسی صورت میں ان طاقتوں کی سرکشی کا زوال شروع ہوجائے گا۔ اسرائیل کی بمباری کے مقاصدکے متعلق کہا جا رہاہے کہ وہ غزہ پٹی کے صفائے کے ذریعہ فلسطین کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اس مقصد میں کامیابی کے حصول کے لئے اسرائیل کو اب دنیا بھر سے مقابلہ کرنا پڑے گا کیونکہ حماس نے اسرائیل کی جھوٹی شان وشوکت اور طاقت کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔اسرائیل پر کئے گئے حملوں میں حماس نے امراء کے کھلونوں اور اڈوینچر کو اپنا ہتھیار بناتے ہوئے جس انداز میں اسرائیلی سرحدوں میں گھس کر حملہ کیا ہے وہ دیگر ممالک میں پائے جانے والے اسرائیل کے خوف کو زائل کرنے میں بڑی حد تک کارگر ثابت ہوا ہے۔اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ اس جنگ میں ہزاروں افراد کی شہادت کے متعلق حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملہ سے قبل کی متوقع ردعمل کا اندازہ لگایا جاچکا تھا اس کے بعد ہی یہ کاروائی کی گئی ہے اور حماس ارض مقدس کے علاوہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔
اس معرکہ آرائی کے دوران اب تک 1700 سے زائد فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور7000 سے زائد زخمی ہیں جن میں 700 سے زائد شدید زخمی ہیں ۔ اسرائیل میں حماس کی کاروائیوں میں اب تک 1450 سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ 5000 سے زیاد ہ زخمی ہیں جن میں 600 سے زائد شدید زخمی ہیں ۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں اسرائیل من گھڑت ‘ بے بنیاد ‘ فرضی خبروں کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے مصنوعی ذہانت کا سہارا لے رہا ہے اور دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ حماس جنگی جرائم کا مرتکب بن رہا ہے اور عام شہریوں کو میزائل کے ذریعہ نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ صہیونی ذرائع ابلاغ نے عالمی سطح پر اس قدر سربراہان مملکت کو پراگندہ کردیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے وائیٹ ہاؤز سے پریس کانفرنس کے دوران 40 معصوم بچوں کے گلے کاٹنے کی توثیق کردی لیکن اس کے بعد قصر صدارت کو اس بات کی تردید کرنی پڑی کہ صدر نے شخصی طور پر یہ تصاویر نہیں دیکھی تھیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی جلی ہوئی نعشوں کے متعلق پھیلائے جانے والے اسرائیلی پروپگنڈہ کی تحقیق پر اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ یہ تصاویر جو صہیونی ذرائع ابلاغ اداروں کی جانب سے دکھائی جا رہی ہے دراصل مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر استعمال کرتے ہوئے تیار کی گئی ہیں ۔اسرائیل کو اس مرتبہ صرف غزہ کے محاذ پر مقابلہ نہیں ہے بلکہ شام کی سرحد پر غصب کردہ گولان کی پہاڑیوں‘ جنوبی لبنان کی سرحد پر حزب اللہ کے ساتھ اب مصر اور اردن کے محاذوں پر بھی مقابلہ کے حالات پیدا ہونے لگے ہیں ۔ اب دنیا کے طاقتور ممالک بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر خطہ میں قیام امن ممکن نہیں ہے‘‘۔
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی