مسلم تحفظات سے چبھن

   

کچھ تسلی تو اس دل کی ہوجائے گی
تذکرے پر مرے مسکرا دیجئے
یہ ایک اٹل اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے اس ملک میں سب سے زیادہ پریشان حال کوئی طبقہ ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میںدیگر ابنائے وطن سے بہت پیچھے ہوگئے ہیں۔ یا پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہیںسب سے پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے ۔ ملک نے آزادی کے بعد سات دہوں میں شاندار ترقی کی ہے ۔ زندگی کے کئی شعبہ جات میں ملک نے شاندار اور نمایاںپیشرفت کرتے ہوئے عالمی سطح پر اپنا مقام بنایا ہے ۔ آج ہندوستان کی ترقی کو دنیا بھی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے تاہم اس ترقی میں اگر ملک کا کوئی طبقہ ترقی کے ثمرات سے محروم ہے یا محروم کردیا گیا ہے تو وہ مسلمان ہی ہیں۔ تعلیم کا شعبہ ہو یا معیشت کا شعبہ ہو ‘ قانون ساز اداروں میں نمائندگی کا سوال ہو یا پھر ملازمتوں میں بھرتیوں کا مسئلہ ہو سبھی میں مسلمان دیگر طبقات سے پیچھے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں تو یہ تک حقیقت منظر عام پر آئی تھی کہ مسلمان اس ملک میں دلتوں اور پسماندہ طبقات سے بھی ابتر حالت کو پہونچ گئے ہیں۔ ملک اور ریاستوں میں قائم ہونے والی حکومتوں کی جانب سے مسلمانوں کی ترقی کیلئے اقدامات کا دعوی کیا جاتا رہا ہے لیکن عملی طور پر ہمیشہ ہی کوتاہی برتی گئی ہے ۔ اب جبکہ خود مسلمانوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور وہ تعلیمی میدان میں اپنی قابلیت سے جگہ بنا رہے ہیں اور انہیں سماجی سطح پر انصاف دلانے کیلئے انتہائی معمولی سے تحفظات ان کی معاشی پسماندگی کی بنیاد پر دئے جا رہے ہیں تو کچھ گوشوں کو اور خاص طور پر بی جے پی کو اس سے تکلیف ہو رہی ہے ۔ مسلمانوں کو دئے جانے والے معمولی سے تحفظات بی جے پی کو چبھنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب متحدہ آندھرا پردیش میں راج شیکھر ریڈی نے مسلمانوں کو چار فیصد تحفظات فراہم کئے تھے اس کو قانونی کشاکش کا شکار کردیا گیا تھا ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے مسلمانوںکو آبادی کے تناسب سے 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ تو کیا لیکن وہ اس وعدہ کو پورا کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور انہوں نے پہلے سے دستیاب چار فیصد تحفظات پر بھی ٹال مٹول سے کام لینا شروع کردیا ہے ۔
سرکاری عہدیداروں کی تنگ نظری کی وجہ سے کچھ معاملات میں یہ چار فیصد تحفظات بھی گھٹ کر تین فیصد ہی کردئے گئے ہیں۔ حالانکہ کے سی آر حکومت نے اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے لیکن تحفظات کو گھٹانے یا نظر انداز کرنے میں عہدیدار کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو یہ مسلم مخالفت میں سب سے آگے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کرناٹک میں عین انتخابات سے قبل مسلمانوں کو دستیاب چار فیصد کوٹہ کو ختم کردیا گیا اور اس کوٹہ کو لنگایت اور ووکالیگا برادری میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ حالانکہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے روک دیا ہے اور حکم التواء جاری کردیا ہے لیکن اس سے بی جے پی کی چبھن اور اس کی مسلم دشمنی یا مخالفت کا اظہار ہوتا ہے ۔ بی جے پی محض ایک بات کرتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات نہیں دئے جاسکتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو تحفظات مذہب کی بنیاد پر نہیں دئے گئے بلکہ ان کی معاشی پسماندگی کی بنیاد پر دئے گئے تھے ۔ اس کے علاوہ دیگر جتنے بھی طبقات کو تحفظات دئے جا رہے ہیں وہ خالص مذہب کی بنیاد پر ہی دئے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ہی محروم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ملک بھر میں جتنے بھی طبقات ہیں جو تحفظات سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں وہ غیر مسلم ہیں۔ یہ مذہب کی بنیاد پر ہی تقسیم کی ایک مثال ہے اور مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ہی سیاسی فائدہ کیلئے تحفظات اور اس کے ثمرات سے محروم کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
تلنگانہ ہو یا کرناٹک ہو یا ملک کی کوئی اور ریاست ہو مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے تحفظات فراہم کئے جانے چاہئیں۔جو مسلمان معاشی ‘ تعلیمی اور سماجی اعتبار سے پسماندگی کا شکار ہیں ان کی پسماندگی کو دور کرنے حکومتوں کو جامع اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ترقی کے ثمرات میں انہیں حصہ دار بنانے کے اقدامات کرنے ہونگے ۔ محض اپنے سیاسی فائدہ اور اکثریتی برادری کو خوش کرنے کیلئے مسلمانوں کو محض مذہب کی بنیاد پر تحفظات سے محروم کرنا درست نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی اور اس کے قائدین کو اگر سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کو عملی طور پر ثابت کرنا ہے تو مسلم تحفظات کی مخالفت ختم کرنی چاہئے ۔