مسلم حکمرانوں کی رعایا پروری

   

ملک کی موجودہ غیرانسانی وغیرآئینی صورتحال کے تناظرمیں دعوت غوروفکر
مسلم حکمرانوں نے غیر منقسم ہندوستان پرکم وبیش ایک ہزارسال حکومت کی ہے،ان کی رعایا پروری امن پسندی ضرب المثل رہی ہے، تاریخ ہند کے روشن اوراق اس کے گواہ ہیں۔ہرطرف بھائی چارہ اورامن وآمان تھا،آپس میں کوئی بھیدبھائونہیں تھا،چھوٹے وبڑے ،امیروغریب کا کوئی فرق وامتیازنہیں تھا ،بلا لحاظ مذہب وملت سب کے سب الفت ومحبت کی ڈورمیں بندھے ہوئے تھے،وجہ یہ تھی کہ حکمرانو ں کی نگاہو ںمیں اپنے اورپرائے کی تفریق نہیں تھی، سب کیلئے عدل وانصاف کا ایک ہی پیمانہ تھا۔رعایا کی خوشحالی ہرحال میں عزیزتھی،ظلم وجورکا دوردورتک گزرنہیں تھا،قطب الدین ایبک نے اپنے محل سے باہرانصاف کی زنجیرلٹکارکھی تھی ،مظلوم کو اجازت تھی کہ وہ انصاف کی زنجیرہلائے اوربادشاہ کے دربارمیں پہنچ کراپنی داستان غم بیان کرے تاکہ اس کوانصاف ملے،ایک واقعہ میں اس کا اپنا لخت جگرقصوروارپایا گیا تواس کو برسرعام کوڑوں کی سزادی۔ غیاث الدین بلبن،علائو الدین خلجی،محمدبن تغلق وغیرہ جیسے کئی ایک حکمران ہیں جن کے ادوارمیں عدل وانصاف زندہ تھا،مظلوموں کی فریادرسی کی جاتی تھی،غیرمسلم رعایا کیلئے منادرکی تعمیر کیلئے آراضی وجاگیریں عطا کی گئیں ،ان کی عبادت گاہوں کا ہرطرح سے تحفظ کیا گیا۔مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کے طول وعرض میں طویل مدت تک حکومت کی ہے ،بے مثال عدل وانصاف و رعایا پروری کی وجہ رعایا ان سے محبت رکھتی تھی،مغل شہنشاہ جہانگیرکے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ روزانہ دوگھنٹے رعایا کیلئے وقف کررکھے تھے،سفروحضرمیں اس معمول میں کوئی فرق نہیں آتا تھا،مظلوموں کے فریادسنتے اورظالموں کے خلاف فیصلے صادرکرتے،اپنی رعایا کی نگہبانی کیلئے اکثرراتوں کوجاگتے۔مغلیہ دورحکومت میں بڑے بڑے عہدوں پرغیرمسلم اصحاب فائزتھے،اورنگ زیب عالمگیرکے عہدسلطنت میں بھی غیرمسلموں کو نہ صرف بڑے بڑے عہدے و مناصب حاصل تھے بلکہ کئی ایک غیرمسلم ان کی فوج میں تھے۔مسلم مخالف مؤرخین نے عالمگیرکوایک ظالم اورہندومخالف بادشاہ کی روپ میں پیش کرنے کی ناروا کوشش کی ہے،لیکن انصاف پسند ایک ہندومؤرخ نے تاریخ ہند میں لکھا ہے’’کاشی ،پریاگ اوردوسری عبادت گاہوں کیلئے جوجاگیریں وقف کی ہیں اورہندوپیشوائوں کے ساتھ جومراعات برتی ہیں اس سے ان(عالمگیر) کی انصاف پسندی ثابت ہوتی ہے‘‘عالمگیرکا دورحکومت پچاس سال تک محیط ہے،ان کی سلطنت کا رقبہ افغانستان سے لیکربنگلہ دیش کے آخری سرحدوں اورلداخ وتبت سے لیکرجنوب میں کیرالا تک پھیلا ہواتھا،ان کے دورحکومت میں ہندوستان کا رقبہ جتنا وسیع تھااتنا وسیع توشاید کبھی نہ پہلے تھا اورنہ بعد میں ۔ خداترسی کا یہ عالم تھا کہ اتنے وسیع وعریض ہندوستان کا قلمروحکومت کے خزانے سے اپنی ذات پرکچھ نہیں خرچ کرتا تھا،قرآن مجیدکی کتابت اورٹوپیوں کی سلائی سے جوکچھ آمدنی ہوتی وہی ان کا کل سرمایہ حیات تھا جس سے وہ اپنی گزربسرکا سامان کرلیا کرتے تھے،یہاں تک کہ زندگی کے آخری سفرکے سامان جیسے تجہیزوتکفین کے مصارف وغیرہ کیلئے بھی انہوں نے اس بات کی وصیت کردی تھی کہ حکومت کے خزانے پراس کا بار نہ ڈالا جائے بلکہ میری محنت سے جوسرمایہ میں نے چھوڑاہے اسی سے اسکی پابجائی کی جائے۔انہوں نے کئی ایسے ٹیکسس جوغیرمنصفانہ تھے ان کوختم کیا، یہاں تک کہ ایسے ٹیکسوں کوبھی معاف کردیا جن کا تعلق غیرمسلموں سے تھا،گنگاپوجا،گنگااشنان اورگنگا میں مردوں کوبہانے پربھی ٹیکس عائدتھا اس طرح کے کئی ایک ٹیکسوں کوختم کردیا۔ تفصیلات کیلئے علامہ شبلی نعمانی کی کتاب اورنگ زیب عالمگیرپرایک نظر،سیدصباح الدین عبدالرحمن کی کتاب ’’مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری‘‘جلد۳ ،مولوی ذکاء اللہ کی کتاب ’’اورنگ زیب عالمگیر‘‘وغیرہ جیسی کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں۔

دورکیوں جائیے آصف جاہی بادشاہوں کی رواداری ،انسان دوستی،مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم رعایا کے ساتھ محبت اوران کے حقوق کی نگہداشت مملکت میں رہنے والی غیرمسلم رعایا کی مذہبی آزادی اوران کے مذہبی مقامات وتعلیمی اداروں کے نظم وانصرام کیلئے زرکثیرسے اعانت بحیثیت مجموعی تمام رعایا کی خوشحالی ،روزگارکی فراہمی ،تعلیم وصحت کیلئے تعلیمی اداروں اور شفاء خانوں کا قیام اوراس کا مفت نظم وانتظام آج بھی زبان زدخاص وعام ہے۔ کئی نامورغیر مسلم مؤرخین نے بھی انکے کارناموں کوسراہاہے ،لال بہادرشا ستر ی وزیراعظم کے دورمیں ہمارے ملک اورپڑوسی ملک کے درمیان جنگ چھڑگئی تھی ،حکومت کا خزانہ خالی ہوگیا تھا ،ایسے میں وزیراعظم نے ریڈیوکے ذریعہ ملک کے سارے باشندوں سے مالی اعانت کی اپیل کی تھی، نظام ہفتم عثمان علی خاں مرحوم نے بھی یہ آوازسنی،فون پروزیراعظم سے گفتگوہوئی توانہوں نے وزیراعظم کوحیدرآباد آنے کی دعوت دی اورپانچ ٹن سونا ڈیفٹس فنڈمیں عطیہ دیا۔
“H.E.H. MIR OSMAN ALI KHAN THE NIZAM VII OF HYDERABAD AND HIS CONTRIBUTIONS”

الغرض کچھ مفادات حاصلہ کیلئے مسلم حکمرانوں کے سورج کی طرح روشن زرین کارناموں کوانصاف دشمن بعض مؤرخین نے مسخ کرکے پیش کیا ہے،انسان دوست حکمرانوں کوانسانیت دشمن کے روپ میں پیش کرنے کی نارواجسارت کی ہے،اس کی وجہ سادہ لوح ایسے انسانوں کے ذہن پراگندہ ہوئے ہیں جو سچ وجھوٹ میں فرق وامتیازکرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ہندوستان ایک سیکولرملک ہے ،اس کے دستورمیں ملک کے شہریوں سے نفرت وعداوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے،نہ مذہبی بنیادوں پرنہ لسانی وطبقاتی بنیادوں پر،پھربھی ملک دشمن چندشرپسندعناصراس وقت مذہب کی آڑلے کرنفرت کی آگ بھڑکارہے ہیں،ملک کی بعض ریاستیں اس آگ کی لپیٹ میں ہیں،ملک کی ترقی و بقاء اوراس کی سا لمیت بھی شاید حکمرانوں کے پیش نظرنہیں ہے ورنہ یہ آگ لگانے والے اس آگ کے بھڑکانے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ اوراگرکسی گوشے میں اس کی آہٹ بھی محسوس ہوتی توملک کے سربرآوردہ اس کا سدباب کرنے کی جان توڑکوشش کرتے، لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق نفرت کی آگ بھڑکانے والے حکومت کے بعض ذمہ داروں کے ہاتھوں تمغہ افتخارپارہے ہیں،ایسے میں ملک کا کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔الغرض موجودہ تشویشناک صورتحال بلاتخصیص مذہب وملت ملک کے تمام باشندوں کوملک کے سیکولرکردارکی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دے رہی ہے،اسلام نے انسانوں کے جدامجدحضرت آدم علیہ السلام کی نسبت سے سارے انسانوں کوایک اکائی قراردیا ہے،سیدنامحمدرسول اللہﷺکا ارشادہے’’کلکم بنوآدم وآدم من تراب‘‘تم سب آدم کی اولادہواورآدم مٹی سے بنائے گئے ہیں۔ہمارے سیکولرملک کی حیثیت گویا ایک جسم کی ہے،اوراس کے سارے باشندگان اس کے اعضاء ہیں ،ہونا یہی چاہئے کہ ایک عضوکی تکلیف دیگرسارے اعضاء کی تکلیف بن جائے،اس اعتبارسے ملک کے بعض مخصوص طبقات جیسے مسلم اوردلت پرکسی بھی عنوان سے ظلم ہورہا ہوتواس کی روک تھام یقینا حکومت وقانون کے اداروں کا فرض ہے لیکن ملک کے سیکولرذہن رکھنے والے تمام شہری بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ حکومت اگرچشم پوشی سے کام لے اوراپنی ذمہ داری نبھانے سے اعراض کر ے تورعایا آنکھ بندکرکے تماشہ تونہیں دیکھ سکتی ،یقینا اس کا فرض ہے کہ وہ حکومت کواس کا فرض یاددلائے،اور دستورکے دائرہ میں رہتے ہوئے پرامن کوشش کرے۔ملک کوانگریزوں کی غلامی سے آزادکرانے کی جوملی جلی جدوجہدکی گئی تھی اسی طرح اب اس ملک کومذہبی نفرت کی زنجیروں سے آزادکرانے کی مسلسل کوششوں کی سخت ضرورت ہے،یہ کام ہرشہری کا ہے،ہرشہری کے دل کی یہی آوازہونی چاہئے، اس سے غفلت ملک کوتباہی کے دہانے پرپہنچاسکتی ہے اوردنیا بھرمیں ہماری جگ ہنسائی ہوسکتی ہے۔ قرآن پاک میں واردہے ’’لا تظلمون ولا تظلمون‘‘(البقرہ:۲۸۰)نہ تم ظلم کرواورنہ تم پرظلم کیا جائے‘‘۔حدیث پاک میں واردہے:۔انصر اخاک ظالما اومظلوما ’’اپنے بھائی کی مددکروخواہ وہ ظالم ہویا مظلوم‘‘صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ!مظلوم کی مددیہ بات توسمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مددکیسے کی جاسکتی ہے ؟آپﷺنے فرمایا ’’تحجزہ عن الظلم‘‘ (بخاری:۳۱۱) ظالم کوظلم سے روک کر۔یعنی ظالم کا ہاتھ تھامنا اوراس کوظلم سے روکنا یہ بھی گویا مددہے،اوراس وقت اس پرعمل کی شدیدضرورت ہے۔