مسلم معاشرہ میں اسلامی روح پھونکنے کی ضرورت

   

اللہ سبحانہ وتعالی نے انسانوں کوجوخاص امتیازات عطافرمائے ہیں ان میں ایک امتیاز خاندان اورقبیلہ کا ہے،نکاح کی برکت سے ددھیالی،ننھیالی اورسسرالی رشتے وجودمیں آتے ہیں ۔یہ رشتے خاندانی نظام کواستحکام بخشتے ہیںلیکن ان سارے رشتوں کا قیام ایک مردوعورت کے جائزرشتہ نکاح میں بندھنے سے ممکن ہوتا ہے،اسلام نے مردوعورت دونوں کیلئے کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے ایسے اصول وضوابط دئیے ہیں جن پرعمل کرکے خاندانی نظام کو ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جاسکتا ہے۔شوہراوربیوی کے حقوق کا شمارحقوق العبادمیں ہوتا ہے،اس حق کے اداکرنے میں ہردوجس قدراسلامی احکامات کی رعایت رکھیں گے اتنے ہی زیادہ کامیاب ہوں گے،زندگی میں نشیب وفرازآتے رہتے ہیں ،ہمیشہ یکساں حالات نہیں رہتے ، کبھی خوشگوارحالات کا توکبھی ناخوشگوارحالات کا سامنا ہوتا ہے،کبھی خوشیاں ومسرتیں استقبال کرتی ہیں توکبھی مصائب وآلام دامنگیرہوتے ہیں۔اللہ سبحانہ نے دن ورات کا نظام بنایا ہے، جیسے رات کی تاریکی ہمیشہ نہیں رہتی نہ دن کی روشنی ،موسم ادلتے بدلتے رہتے ہیں ،ہمیشہ ایک جیسا موسم نہیں رہتا ایسے ہی زندگی میں مختلف احوال سے سابقہ پڑتاہے۔شوہراوربیوی ایک دوسرے کے نفسیات ،احساسات وجذبات کا بھرپورلحاظ رکھیں،فکروخیال میں ہم آہنگی پیدا کریں،انتشاروافتراق سے بچنے کی ممکنہ تدابیراختیارکریںتوکوئی وجہ نہیں کہ ازدواجی زندگی کا سفر کامیابی سے ہمکنارنہ ہو۔زندگی کے اورشعبوں میں کامیابی کیلئے جیسے تعلیم کے ساتھ تربیت کی ضرورت ہے ایسے ہی ازدواجی زندگی کے شعبہ میں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔مسلم سماج میں عصری تعلیم کا شعورضرورپیداہواہے لیکن دینی تعلیم اوردینی نہج جیسی تربیت کی ضرورت ہے اس کا بڑافقدان ہے جوزندگی میں مسائل پیداکرنے کی بڑی وجہ ہے ،نئی نسل کوجواسلامی ماحول ملنا چاہئے وہ نہیں مل پارہاہے،والدین اورخاندان کے بزرگ اس کے بڑے ذمہ دارہیں، بے وجہ طلاق کے واقعات کی روک تھام یا اس میں کمی لانے کیلئے اس کی ضرورت سے انکارنہیں کیا جاسکتا ،ربع صدی سے قبل عصری تعلیم کی نہ ایسی نئی نئی راہیں تھیں اورنہ اس کی تحصیل میں کوئی عمومی دلچسپی تھی لیکن گھریلووخاندانی ماحول دین وشریعت کے رنگ میں رنگاہواتھا،

یہی وجہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے پہلے طلاق کے واقعات بہت کم رونما ہوتے تھے اوراب آبادی کے تناسب سے اس میں خاصا اضافہ دیکھا جارہا ہے۔بلاوجہ اورکبھی چھوٹی موٹی باتوں پرطلاق کا رجحان بڑھتاجارہاہے، طلاق ثلاثہ کے عنوان سے حکومت کی مداخلت ،خلاف اسلام قانون سازی ،اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ایک منصوبہ بند سازش ہے اوربہت سے مسائل ہیں جن کا راست مسلم اقلیت سے تعلق ہے وہ سب حکومت کے نشانے پرہیں،ووٹ بنک کی خاطر ملک میںجونفرت کی تخم ریزی کی گئی تھی اب وہ برگ وبارلارہی ہے، دلت اورخاص طورپر دوسری بڑی اکثریت(مسلم کمیونٹی)جس کے نتائج بدکاشکارہے، متعصبانہ متنفرانہ دہشت گردانہ مسلم دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ہجومی تشددکی غنڈہ گردی عروج پرہے،ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی خفیہ سازش ومنصوبہ بندی کی وجہ غنڈہ عناصربے لگام ہیں اور قانون کی گرفت سے باہر ہیں جودرندگی وبربریت مچا کر سیکولر ملک کے خوشنما چہرے پرکالک پوت رہے ہیں ، حکومت کے ذمہ داروں کے بیانات روتے کے آنسو پوچھنے کے مترادف ہے۔ یہ امتحان کی بڑی صبرآزما سخت گھڑیاں ہیں ،ان حالات سے نبردآزما ہونے کا کیا راستہ ہوسکتا ہے اس پرغوروفکرکرنے اورلائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے،ملکی حالات کو صحیح رخ پرلانے کے لئے بڑے پیمانے پر مسلم اور سیکولر برادران وطن سے مشاورت کے ساتھ طویل منصوبہ بندی درکارہے،اس کوشش وجدوجہدکوفوراً شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے سیکولرکردارکا تحفظ ہوسکے ۔ ملکی حالات کی اصلاح کے ساتھ مسلم سماج میں بھی اصلاح کی شدیدضرورت ہے ،اس مقصد کیلئے کمسن اورنوجوان لڑکوں ،لڑکیوں کی دینی تعلیم وتربیت پرخصوصی توجہ دی جائے،شہرکے تمام محلوں اوردیہاتوں میں ایسے صباحی ومسائی مراکزکا قیام عمل میں لایا جائے جہاں دردمندی وفکرمندی کے ساتھ دینی تعلیم وتربیت کا خاص اہتمام ہو۔بالعموم سارے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں اور بالخصوص جن کے رشتے طے ہوچکے ہوں کیلئے ایسے مراکزتربیت ہونے چاہئے جہاں اسلامی ونفسیاتی نقطئہ نظرسے کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے طورطریق سمجھائے جائیں،کم ازکم تین مہینے ہفتہ واری طرزکی کلاسس کا اہتمام ہوناچاہئے ،نوجوانوں کے والدین اورسرپرست بھی اس میں دلچسپی لیں اورایسی کلاسس میں ان کی شرکت کویقینی بنائیں ، اس کوشش سے ان شاء اللہ نارواوبیجا طلاق کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔طلاق دینا ناگزیرہوتواسلام نے اس خصوص میں کیا ہدایات دی ہیں اس کی تعلیم بھی ضروری ہے،ورنہ عام طورپربے دینی ،خدا بے خوفی وآخرت فراموشی اوراسلامی احکام وقوانین سے لاعلمی وجہالت کی وجہ آئے دن طلاق کے واقعات میں اضافہ ہے۔

نکاح تادم زیست رشتہ نبھانے اور خوشگوارازدواجی زندگی گزارنے کا ایک عہدہے،اس عہدکی پاسداری اسی وقت ممکن ہے جب ایک دوسرے کو خوبیوں وکمزوریوں کے ساتھ قبول کیا جائے، رشتہ نکاح میں کبھی شوہرتوکبھی بیوی کی ناسمجھی وناعاقبت اندیشی اورکبھی ان کے والدین اور بھائیوں وبہنوں کی زیادتی اوران نازک رشتوں میں نارواعنادو دشمنی کی وجہ دراڑقائم ہوتی ہے۔ اچھے خاصے ازدواجی رشتوں میں کبھی ان میں سے کسی کی انا اورنفسانیت وقوع طلاق یا خلع کا باعث بنتی ہے،الغرض جہالت ونادانی ازدواجی زندگی کی کشتی کوساحل مرادتک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
قول وعمل ،رویہ وبرتائو سے کسی کوایذاء وتکلیف پہنچانے کواسلام سخت ناپسندکرتا ہے،رشتہ دارتورشتہ دارہیں پڑوس میں رہنے والوں کوتکلیف دینا ایمانی تقاضوں کے منافی ہے۔ سیدنامحمدرسول اللہ ﷺنے تین مرتبہ فرمایا کہ وہ ہرگزمومن نہیں ہے،عرض کیا گیا کون یا رسول اللہ! فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم سے مامون نہ رہے(بخاری:۶۰۱۶)
حدیث پاک سے یہ بات ظاہرہے ایذاء رسانی مومنانہ کردارکے منافی ہے،ایک گھرمیں رہنے والے اپنے کرداروعمل سے اگرایک دوسرے کیلئے باعث آزاربن جائیں تو اس سے بڑھ کرظلم اورکیا ہوسکتا ہے،ساس وبہو،نندوبھاوج کے رشتے پیارومحبت کی چھائوںفراہم کرسکتے ہیں لیکن نفرت وعداوت،آزارلسانی ودل شکنی ان رشتوں کی خاص پہچان بن گئی ہے۔سلسلہ چشتیہ کے بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ الباری نے تمثیل کی زبان میں انسان دوستی کا پیغام دیا ہے۔فرماتے ہیں ’’انسانوں کے درمیان سورج جیسی شفقت،دریا جیسی سخاوت اورزمین جیسی تواضع ہونی چاہئے‘‘اپنے اورپرائے کی تخصیص کے بغیر یہ سب اپنے مفوضہ فرائض انجام دیتے ہیں، سورج سب کوروشنی دیتا ہے اورسارے عالم کوروشن ومنورکرتا ہے،دریا ہرایک کی پیاس بجھاتاہے اورزمین اپنی گودمیں ہرایک کو رہنے بسنے اورزندگی گزارنے کا موقع دیتی ہے،اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کواسی فطرت پرقائم فرمایا ہے لیکن انسان کوامتحان کی غرض سے آزادی دی ہے۔ اس تمثیل میں انسانوں کوایسی ہی شفقت ومحبت،دریا دلی وسخاوت،خاکساری وتواضع اختیارکرنے کا درس دیا گیا ہے۔خواتین کے وہ رشتے جن کا ابھی ذکرہواہے وہ بھی اس پیغام انسانیت کودل میں بسائیں اورعملی زندگی میں برت کردکھائیںتو خاندانی زندگی میں اس کے اچھے اور خوشگوارنتائج دیکھے جاسکتے ہیں اورحال وماحول رحمتوں کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
رشتہ نکاح میں اسلامی نقطئہ نظرسے دینداری قابل ترجیح ہے،سیدنامحمدرسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا کہ نکاح حسن وجمال،مال ومنال،حسب ونسب اوردینداری کی بنیادپرکیا جاتا ہے لیکن کامیابی صرف اورصرف دینداری پرہی مل سکتی ہے۔لیکن ہماری ترجیحات بدل گئی ہے،دین وایمان سے کہیں زیادہ اورامورجومادی ہیں قابل ترجیح قرارپاچکے ہیں،اس رجحان کی اصلاح سے بھی بہت سے مصائب ومشکلات سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔