مسٹر مودی کیا آپ کو شہروں میں بیروزگاری کا پتہ ہے؟

   

سبودھ ورما
شہری علاقے کبھی روزگار اور اقتصادی نمو کے انجن تصور کئے جاتے تھے، لیکن نریندر مودی کی معاشی پالیسیوں کی مکمل ناکامی کے نتیجہ میں اب ایسی بات نہیں رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیہی علاقوں خاص کر زرعی شعبہ میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو ایک طرح سے اپنے آپ میں جذب کیا جارہا ہے یعنی زرعی شعبہ میں انہیں مجبوراً ملازمتیں دی جارہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آمدنی چند لوگوں میں تقسیم ہوا کرتی تھی، اب وہی آمدنی لوگوں کی کثیر تعداد میں تقسیم ہورہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہری علاقوں میں رہنے والے تعلیم یافتہ نوجوان کہاں جائیں؟
سی ایم آئی ای ڈیٹا کے مطابق پچھلے تین برسوں میں شہری بیروزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک 8% کا اضافہ ہوا۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ شہری علاقوں میں اپریل ۔ مئی 2020ء میں نافذ کردہ پہلے لاک ڈاؤن کے دوران بیروزگاری میں 25% کا اضافہ ہوا تھا۔ یہ سب کچھ حکومت کی ناقص معاشی اور دیگر پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد بیروزگاری کی شرح میں تھوڑی سی کمی آئی لیکن کورونا وائرس کی دوسری ہلاکت خیز لہر اور پھر اپنے ساتھ لائی سخت پابندیوں کے نتیجہ میں مئی 2021ء میں دوبارہ بیروزگاری کی شرح تقریباً 15% ہوگئی جب پابندیوں میں نرمی کی گئی تب اس شرح میں تھوڑی سی کمی آئی، لیکن جب اس میں کمی آئی تب بھی وہ 8% یا اس سے زائد رہی۔ تین برسوں کیلئے بیروزگاری کی شرح خاندانوں کیلئے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیادہ تر خاندان قرضوں، خیرات یا پھر جہاں کہیں چھوٹے موٹے کام مل جائے وہ کرتے ہوئے اپنی بقاء کو یقینی بنا رہے ہیں۔
سی ایم آئی ای کے تخمینہ کے مطابق جنوری 2019ء میں شہری ہندوستان میں جو لوگ روزگار سے جڑے ہوئے تھے ان کی تعداد 12.84 کروڑ رہی لیکن ڈسمبر 2021ء کے آغاز میں یہ گر کر 12.47 کروڑ ہوگئی۔ باالفاظ دیگر آبادی میں بھی اضافہ ہوا (جیسے کہ کام کرنے والی آبادی میں اضافہ کا معاملہ ہے) یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ شہری علاقوں میں روزگار سے جڑے لوگوں کی تعداد میں تقریباً 37 لاکھ کی کمی آئی۔ اگر ہم اس کا تقابل دیہی صورتحال سے کرتے ہیں تو اسی تین سال کی مدت میں جو لوگ ملازمتوں سے جڑے ہوئے تھے، ان کی تعداد 27.77 کروڑ تھی جو گھٹ کر 27.68 کروڑ ہوگئی یعنی 9 لاکھ کی کمی آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں بھی روزگار سے جڑے رہنے والوں کی تعداد میں کمی تشویش کی بات ہے، لیکن اس کے باوجود شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں حالات ٹھیک ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زرعی شعبہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جارہا ہے اور اس کے لئے دیہی روزگار طمانیت اسکیم جیسے مختلف پروگرامس دیہی علاقوں میں کچھ راحت کا باعث بن رہے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت 2019-20ء میں 7.88 کروڑ لوگوں کو روزگار سے جڑنے کا موقع ملا اور یہ تعداد 2020-21ء میں بڑھ کر 11.18 کروڑ ہوگئی۔ اسی طرح 11 ڈسمبر 2021ء تک اس تعداد کے بارے میں جو اعداد و شمار آئے ہیں یا ایم جی این آر ای جی اے پورٹل پر جو سرکاری اعداد و شمار دستیاب ہیں، اس کے مطابق 9.06 کروڑ لوگ روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیہی روزگار طمانیت اسکیم ہزاروں بے یارو مددگار بیروزگار افراد کو دیہی علاقوں میں روزگار کی فراہمی کا باعث بن رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ایک گھر کے فرد کو 100 دن تک روزگار فراہم کیا جارہا ہے۔ اس کے برعکس شہری علاقوں میں کوئی زیادہ راحت دستیاب نہیں ہے۔ اگرچہ شہری علاقوں کے بیروزگار لوگ روزگار طمانیت اسکیم پر عمل آوری کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سی ایم آئی ای سروے ڈیٹا سے حیرت انگیز اعداد و شمار منظر عام پر آئے ہیں جو بہت تشویش کا باعث ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شہری علاقوں میں کام کی شراکت سے متعلق شرح خود گر رہی ہے۔ جنوری 2019ء میں یہ شرح 41.5% تھی، لیکن ڈسمبر 2021ء میں وہ گر کر 37.5% ہوگئی۔ اس شرح میں گراوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ حالات کس قدر سنگین رخ اختیار کرتے جارہے ہیں، لوگ بوکھلاہٹ کا شکار ہورہے ہیں، وہ ایک طرح سے ٹوٹ گئے ہیں۔ ان کی امیدیں بکھر گئی ہیں۔ کام نہیں مل پا رہا ہے۔ جب سروے کرنے والوں نے ان سے ربط پیدا کیا تو لوگوں نے ان سے صرف اتنا کہا کہ ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ اس کے برعکس وزیراعظم نریندر مودی نے کبھی اچھے دن کا وعدہ کیا تھا، لیکن آج بیروزگاری کی شرح میں اضافہ کو دیکھ کر اور بیروزگاروں کی پریشانیوں و مصائب کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ اچھے دن ابھی تک نہیں آئے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پہلے لاک ڈاؤن کے دوران ہی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوکر رہ گئی تھی۔ صرف بنیادی خدمات اور زرعی کام جاری تھا لیکن شہری علاقوں میں لاک ڈاؤن پر پولیس اور انتظامیہ کے ذریعہ سختی سے عمل کروایا گیا۔ نتیجہ میں لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے ورکرس اپنے گاوؤں کو واپس لوٹے ۔ ان لوگوں کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ ان کیلئے کوئی کام دستیاب نہیں ہے۔