مشکل حالات

   

مَیں گناہوں پہ اپنے نادم ہوں
اب حساب و کتاب رہنے دے
مشکل حالات
دنیا کے موجودہ حالات شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انتباہ ہو اور یہ انسانوں کے لیے ہدایت پر آنے کا ذریعہ ہو ۔ اگر اس پر غور کیا جائے تو انسانوں خاص کر مسلمانوں کو یہ سوچ روشنی بن کر ان کی زندگیوں میں اتر جائے اور بڑی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ماضی میں بہت غلطیاں ، گستاخیاں اور گناہ سرزد ہوئے ہیں ۔ اسی لیے آج مساجد بند ہوچکی ہیں ۔ گھروں میں قید ہو کر بھی ہم یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ ان حالات میں ہمیں کس قدر حساس اور محتاط ہونا چاہئے ، اپنا محاسبہ کرنا چاہئے ۔ دنیا کی تاریخ کا بدترین وائرس اگر کورونا ہے تو یہ عذاب بن کر عوام پر ٹوٹ پڑا ہے ۔ یہ صرف ہندوستان کی صورتحال نہیں بلکہ اس وائرس سے آج ساری دنیا پریشان ہے ۔ چھوٹی چھوٹی بیماریاں اکثر انسان کی اپنی بے احتیاطیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ بڑی وبائیں بھی اس وقت آتی ہیں جب انسانوں کی ایک بڑی تعداد فطرت یا قدرت کے نظام سے بغاوت کرتی ہے ۔ طبعی اصولوں کو توڑنے کے نتائج اس قدر بھیانک طور پر رونما ہورہے ہیں کہ ہر ملک میں نعشوں کے انبار ہیں ۔ یہ حکومتیں عوام کو خوف سے دور رکھنے کے لیے کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کو کم کر کے بتا رہی ہیں ۔ ساری دنیا میں خاص کر عالم اسلام میں ماہ رمضان المبارک کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن میں گذر گیا ۔ یہ وقت ہم تمام کے لیے عبرت کا درس دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ کو کورونا وائرس کے خوف سے بند کردیا گیا ۔ انسان اپنی ساری صلاحیتوں کے باوجود ایک وائرس کے آگے بے بس ہے ۔ یہ وائرس آیا انسانی کارستانی ہے یا صنعتی و ٹکنالوجی کی ترقی پر ناز کرنے والے چند مٹھی بھر افراد کی لاپرواہی ،یہ فکر کا لمحہ ہے ۔ کورونا جس رفتار سے انسانی جانیں لے رہا ہے ۔ اس میں کمی کا تو کوئی امکان نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔ لاک ڈاؤن ختم کرنے کے بعد کی صورتحال پر غور کرنے والے یہ سوچ کر خوف زدہ ہورہے ہیں کہ اگر حالات اس سے زیادہ ابتر ہوجائیں تو کیا ہوگا ۔ حکومتوں اور ریاستوں کے پاس کوئی انتظامات نہیں ہیں ۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ مہاراشٹرا کے شہر ممبئی میں کورونا وائرس سے اموات ہورہی ہیں ۔ دہلی ، مغربی بنگال ، ٹاملناڈو ، گجرات ، مدھیہ پردیش ، ایسی ریاستیں ہیں جہاں ہر روز اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں چونکہ ٹی آر ایس حکومت نے لاک ڈاؤن کے ساتھ کئی سخت اقدامات کئے ہیں اس لیے یہاں یہ مہلک وائرس صرف گریٹر حیدرآباد کے حدود تک ہی اثر دکھا رہا ہے ۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان کے عوام کو ڈسپلن کی ٹریننگ حاصل نہیں ہے ۔ کورونا کا علاج دریافت نہ ہونے کے باوجود یہاں کے عوام اس وائرس سے لاپرواہ ہوتے جارہے ہیں ۔ اس وباء کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ بہت کچھ تبدیلیاں ہونے والی ہیں ۔ ایک بڑی افسوسناک تبدیلی یہ ہے کہ مہلک وائرس کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ان کی مساجد بند کردی گئیں ۔ اس ملک کے علاوہ دنیا کے ماباقی ملکوں میں بھی مساجد کو بند رکھا گیا ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسلمانوں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے اس وباء کی روک تھام میں اہم رول ادا کیا ۔ مسلمانوں کو آگے بھی احتیاط سے رہنے کی ضرورت ہے ۔ ماہ رمضان کے اختتام کے بعد کے حالات نازک ہوسکتے ہیں ۔ اس مقدس ماہ میں مسلمانوں نے جس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھا اور مالی یا اجناس کی شکل میں مدد کی یہ قابل تحسین عمل ہے اس لاک ڈاؤن نے بھلے ہی سماجی دوری برقرار رکھنے کے لیے مجبور کیا لیکن آپسی ضرورتوں کو پورا کرنے کی دوری گھٹا دی ۔ لوگوں نے ان مشکل حالات میں خود کو ثابت قدم بھی رکھا ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام مسلمان آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کریں ۔ جن حالات سے گذر کر آج ہم اپنے مقدس ماہ رمضان کو الوداع کہہ رہے ہیں ۔ ان حالات کے برقرار رہنے اور امکانی واقعات کی صورت میں خود کو کس طرح محتاط اور متحرک رکھ سکتے ہیں ۔ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ ، ضرورتوں اور تقاضوں کو سمجھنے کی طاقت نے ہی ان کے ذہنوں اور دلوں کو کشادہ کیا ہے تو اس کشادہ دلی کو مزید کشادہ بنانے اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر حالات کا سامنا کرنے کا جذبہ برقرار رکھنا چاہئے ۔۔
کراچی میں طیارہ حادثہ
پاکستان کے شہر کراچی میں طیارہ حادثہ افسوسناک واقعہ ہے ۔ عید سے دو دن قبل یہ حادثہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے دور سے گذر کر اپنے عزیزوں سے ملاقات کرنے کے لیے جانے والے مسافرین موت کی نیند سو گئے ۔ لاہور سے کراچی پہونچنے والے پی آئی اے کے اس بدنصیب طیارہ میں 99 مسافر سوار تھے ۔ طیارہ میں فنی خرابی پیدا ہونے یا کراچی جناح انٹرنیشنل ایرپورٹ سے متصل گنجان آبادی کی وجہ سے پرندوں کی بہتات کے باعث یہ حادثہ پیش آنے کا گمان کیا جارہا ہے ۔ ایرپورٹ سے متصل گنجان آبادیاں ہوا بازی کی شرائط اور اصولوں کے مغائر سمجھی جاتی ہیں ۔ پرندے کے ٹکرانے کی وجہ سے طیارہ حادثہ کا شکار ہوا ہے تو یہ حکومت اور متعلقہ حکام کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ۔ طیارہ میں فنی خرابی پیدا ہونے کی اطلاع پائیلٹ نے ایر کنٹرول ٹاور کو دیدی تھی اور اس نے لینڈنگ کے لیے دو مرتبہ کوشش کی لیکن ناکام رہا ۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے کئی ہفتوں کے لاک ڈاؤن کے بعد اندرون ملک پروازوں کو شروع کیا گیا تھا ۔ اس حادثہ میں 3 مسافر معجزاتی طور پر بچ گئے اور ایک ایرہوسٹس بھی حادثہ کا شکار طیارے میں سوار نہیں ہوسکی ۔ ایر ہوسٹس مدیحہ اکرم کو طیارہ کی روانگی کے وقت کسی وجہ سے طیارے میں سوار ہونے نہیں دیا گیا ان کی جگہ ایرہوسٹس انعم مسعود کو سوار کیا گیا ۔ اللہ جس کو رکھے اسے کون چکھے ۔ بہر حال حادثات ایک المیہ ہوتے ہیں لیکن کراچی طیارہ کا حادثہ ایرپورٹ کے قریب گنجان آبادیوں کو وجود میں لانے کا بھیانک انجام ہے تو اس طرح کے حادثے آگے بھی ہوسکتے ہیں ۔ ہوا بازی شعبہ کے ذمہ داروں کو اس معاملے میں غور و فکر کی ضرورت ہے۔۔