مصائب و آلام کا حل احکام الہٰیہ کی پابندی ،اس کی بندگی بجالانے اور جائزمادی اسباب اختیار کرنے میں مضمر

   

ہندوستان میں جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے ہمارے ملک کے حالات دگرگوں ہیں، جس رُخ سے جائزہ لیا جائےدستوری اعتبار سے زمام حکومت سنبھالنے میں حکومت سخت ناکام ہے ،پہلے پہل مسلمانوں کو نشانہ پر رکھا گیا ، مسلمانوں کے عائلی مسائل میں بے جا مداخلت ہوتی رہی ،مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے واقعات اکثر اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں ، حال ہی میں بھینسہ شہر میں غنڈہ عناصر نے نہ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا بلکہ مساجد کی بے حرمتی کی ، وقفہ وقفہ سے سارے ملک میں غیر سماجی عناصر درندگی مچارہے ہیں ،جمہوریت پسند شہری شدت سے یہ بات محسوس کررہے ہیں کہ حکومت و قانون کی ان پر کوئی گرفت نہیں ہے ،بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ پھر ایک طویل مدت کے بعد ملک کی عدالت سے صادر ہونے والا غیردستوری فیصلہ جمہوری اقدار کے منافی ہے،جس پر صرف مسلمان ہی نے نہیں بلکہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ سیکولر دانشوران ملک نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اب این آر سی ‘سی اے اے اور این پی آر جیسے غیر جمہوری قوانین کے خلاف ہمارے ملک کی اکثریت بلالحاظ مذہب و ملت سراپا احتجاج ہے ،جمہوری اقدار کی حفاظت ،ملک ودستور کے تحفظ کیلئے یہ بات بڑی خوش آئنداور حوصلہ افزاء ہے، یہ اللہ سبحانہ کی غیبی مدد ہے اس کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جانا چاہئے ،اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے سدباب کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے ،ایسے میں مسلمانوں کے کرنے کے دو کام ہیں ، پہلا کام تو رجوع الی اللہ ہونے کا ہے ،اس خصوص میں مسلمان اب بھی غفلت کا شکار ہیں ،کامیابی کا زیادہ تر انحصار اسی پر ہے کہ زندگی کے سارے شعبوں میں اسلام کی حکمرانی ہو، خاص طور پر مساجدکی آبادی اس خصوص میں بڑی اہمیت رکھتی ہے ، مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ ساری انسانیت کی صلاح و فلاح کا راز مساجد کے اصل کردار کو زندہ کرنے میں مضمر ہے ، مسلم سماج میں مساجد بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ، مساجد مسلمانوں کی زندگی کا محور و مرکز ہوتی ہیں ، ان کی زندگی گویا مساجد کے اطرف گھومتی ہے ، مساجد صرف نمازوں کی ادائیگی تک محدود نہیں ، وسیع تناظر میں مساجد کا اہم کردار ہے ، مساجد کے مقاصد میں نماز و عبادت کے ساتھ تعمیر سیرت ، تعلیم و تربیت ، معاشرہ کی اصلاح ،سماجی ومعاشرتی احوال کی درستگی ، بلالحاظ مذہب و ملت انسانیت کی خدمت ،خاص حالات میں بیماروں کی عیادت اور مصیبت زدگان کی مالی امداد ، دل شکستہ انسانیت کے غموں کا مداوا کرنے مظلوموں کا سہارا بننے اور زخم خوردہ انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے ، انسانی دلوں میں ہدایت کے چراغ روشن کرنے اور پیغام ِ امن و محبت ، اورجذبات ِایثار و قربانی کو فروغ دینے جیسی اہم ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انسانیت کے دلوں پر دستک دینا ہے ،صدر اسلام میں مساجد کے یہ اہم اہداف تھے ، ان سے مسلمانوں نے صرف نظر کرلیا ہے ، مسجد ِنبوی میں ایک خاص گوشہ ’’ریاض الجنہ ‘‘ہے اس میں ایک حصہ مسلم و غیر مسلم وفود سے ملاقات کیلئے مختص تھا ،یادداشت کیلئے اس جگہ استوانہ وفودتعمیر کیا گیا ہے ، جو آج بھی محفوظ ہے ، اس تناظر میں ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ یہ اہم امور ہماری خصوصی توجہہ کا محور بنتے ،لیکن یہ تو نہیں ہوسکا البتہ ہم نے مساجد کو تقسیم کرلیا ہے اور اب مسلکی فروعی اختلافات جو دراصل کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں وہ فکر و عمل کا محور بن گئے ہیں، اس فکر و نظر کی تنگی کی وجہ سے جب مساجد کے دروازے اپنوں کےلئے بند ہیں تو اووروں کیلئے یہ بات کہاںایسی کوتاہ فکر و فہم میں سماسکتی ہے۔
اللہ سبحانہ کا شکر و احسان ہے کہ مسلم ممالک میں کچھ اور خرابیاں تو ہوسکتی ہیں لیکن مساجد کے دروازے بلالحاظ مسلک و مشرب سب کیلئے کھلے ہوئے ہیں نماز و عبادت تو مساجد کی روح اور جان ہیں ، اس جہت سےدیکھا جائے تو یہی صدائے باز گشت سنائی دے گی ۔
مسجدیںمرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
اسلام کے ابتدائی اوراس سے متصل ادوار میں دراز مدت تک مسجدیں سادی سیدھی تھیں ، لیکن مصلیوں سے آباد اور ان کے اہم مقاصد کی تکمیل کے مراکز تھیں ، بعدکے ادوار میں بڑی بڑی پختہ ، خوشنما وخوب منظر مساجدتعمیر ہونے لگیں ، ہمارے ملک کی بعض مساجد تعمیری اعتبار سے شہکار مانی جاتی ہیں جن میں مصلیوں کی تعداد کم اور بطور تفریح طبع مساجد کی فنی تعمیری خوبیوں ،نزاکتوں اور ان کے حسیں گل بوٹے ، نقش و نگاراوررنگ و روغن سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کیلئے بڑی تعدادہر روز پہنچتی ہے ، مساجد کے بلند اہداف کا تو کوئی تصور ہی نہیں موجودہ حالات متقاضی ہیں کہ مساجد کو آباد کیا جائے ،نماز پنجگانہ کی جماعت میں مسلمانوں کی شرکت جمعہ و عیدین کا نظارہ پیش کرے اور مسجدیں تنگ دامنی کا شکوہ کریں ، مسلمانوں پر نماز ہرحال میں فرض ہے اور یہ دین کا ایک اہم ستون ہے ، حدیث پاک میں ارشاد ہے ’’نماز دین کا ستون ہے جس نے اس کو ڈھادیا اس نے دین کو ڈھادیا ‘‘۔ نمازوں کا ترک کرنا اور مساجد کو ویران کرنا تو ہر گز مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہوسکتا ،انفرادی یا اجتماعی مصائب و آلام نے گھیر لیا ہو تو نماز و صبر ہی سے ان کا دفاع ممکن ہے ،ارشاد باری ہے اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ذریعہ (اللہ کی ) مدد چاہو،راحت و آرام اور چین وسکون نصیب ہوتو مسلمانوں کو اللہ سے رجوع رہ کر فرائض ادا کرنے کے ساتھ صلوٰۃ شکرانہ ،مشکلات و پریشانیوں کا سامنا ہو تو صلوٰۃ حاجت ادا کرنا چاہئے ،محرمات ومعاصی سےاجتناب عارضی مادی فوائد ونفسانی خواہشات ولذائذ کی قربانی دینا، احکام الہی کی بجاآوری میں اگر کچھ مشقتیں اور تکلیفیں دامن تھام لیںتوان کواللہ سبحانہ کی رضا کیلئے برداشت کرناصبر کہلاتا ہے ،نماز کی برکت کا غیر مسلم بھائیوں نے بھی سرکی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ، سال گذشتہ ماہ دسمبر ۲۰۱۹ء میں آسٹریلیاء کے جنگلات میں آگ لگ گئی تھی بے قابو آگ کی وجہ کروڑوں جانور ہلاک ہوچکے ، آگ کے دھوئیں سے نکلنے والی کثافت کی لپیٹ میں آنے سے کئی انسان لقمہ اجل بن گئے ،مختلف شہروں کی فضاء آلودہ ہوگئی ، آسٹریلیائی وزیر اعظم اسٹارٹ موریسن نےتین ہزار فوجیوں کو مدد کیلئے طلب کرلیا تھا ،پانچ سو سے زائد فائرفائٹرزآگ بجھانے کی مسلسل جدوجہد میں مصروف رہے یہ ساری مادی کوششیں ناکام رہیں، موسم گرما کے باعث آ گ تھی کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی ان دل شکن حالات میں مسلمانوں نے نماز استقساء ادا کی ،جس کے فوری بعد موسلادھار بارش ہوئی جس کے نتیجہ میں آگ سرد ہوئی اور ایک حد تک اس آسمانی مصیبت پر قابو پایا جاسکا ،ظاہر ہے اخلاص و للہیت ذکر و فکر توبہ و اِنابت کے ساتھ رجوع ہونے والے اعمال بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پاتے ہیں اور اس کے اچھے نتائج وثمرات ملت ہی کو نہیں بلکہ سارے انسانی سماج کو حاصل ہوتے ہیں ،اس سے متاثر ہوکر ایک غیرمسلم بھائی نے واٹس اپ پر مسلم بھائیوں کو پیغام دیا کہ مسلمانو !نماز ادا کرو، آسٹریلیا کے مسلمانوں کے نماز ادا کرنے سے جنگل کی آگ بجھ سکتی ہے تو کیا ہمارے ملک میں نفرت وعداوت ظلم و جور کی لگائی گئی آگ نماز ادا کرنے سے نہیں بجھے گی ؟ ۵ ۔ جنوری ۲۰۲۰ ء شاہین باغ میں جاری احتجاج کے دوران ہمارے ایک سردار جی بھائی نے مسلم احتجاجیوں سے سوال کیا کہ کیا تم نے نماز پڑھی ہے ؟ مسلمانوں پر گھڑوںپانی پڑ گیا ندامت سے و ہ سراٹھانے کے قابل نہیں رہے پھر سردار جی بھائی نے کہا کہ لڑائی بہت آگے تک جانے والی ہے ، اگر اوپر والے سے دور رہ کر یہ لڑائی لڑوگے تو کیسے کامیاب ہوسکو گے ۔یہ کتنا بڑ ا المیہ ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائی ہم کو ہماری ذمہ داری کا احساس دلارہے ہیں ، غیر مسلم بھائی بھی اب مسلمانوں کو نمازوں کی پابندی کی دعوت دینے لگے ہیں ،غالباً ان کی فطرت اندر سے جھنجھوڑ رہی ہےاور دنیا کے مسائل کا حل مصائب و آلام سے چھٹکارہ ان کو اب نماز میں نظر آرہا ہے ۔یہ تو کامیابی کا روحانی علاج ہے ،یہ دنیا چونکہ اسباب پر رکھی گئی ہے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺنے اسباب کو اختیار کیا ہے اور اسباب اختیار کرتے ہوئے اللہ سبحانہ پر توکل کرنے کی تلقین کی ہے ،اسلام عدل و انصاف کا داعی ،امن و آشتی کا پیغامبرہے آزادئ ِراے کے حق کو تسلیم کرتا ہے، ایک معمولی شہری کو بھی خلیفہ وقت کو متنبہ کرنے اور اس کا ہاتھ پکڑنے کی اجازت حاصل ہے ،ظلم کا سخت مخالف ہے اس کی یہی وہ بنیادیں ہیںجو فطرت انسانی کو اپیل کرتی ہیں،جس کے بغیر اسلامی مملکت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جمہوری ملکوں میں بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنا احتجاج درج کروانے کی دستور ی اجازت ہے ، اس تناظر میں اسبابی نقطۂ نظر سے مسلمانوں کی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ حالات میں نہ صرف ملک میں جاری احتجاج کا حصہ بنیںبلکہ احتجاج کی امامت و قیادت کا رول ادا کریںتاآنکہ حکومت غیر دستوری ظالمانہ قوانین کے نفاذ سے دستبردار ہوجائے اور ملک میں عدل و انصاف دستور و قانون کی حکومت ہو ملک کے سارے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو اور ملک کا سیکولر کردار بحال ہوجائے ملک کی ترقی ہو اور بیرونِ ملک اس کی نیک نامی پر کوئی آنچ نہ آئے ۔