معاشی اصلاحات ،راجیو گاندھی کا کارنامہ

   

وینکٹ پارسا
سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے المناک قتل کو تقریباً تین دہے گزر چکے ہیں۔ 21 مئی 2021ء کو ان کی برسی منائی گئی۔ راجیو گاندھی جنہوں نے ہندوستان میں آئی ٹی و اقتصادی اصلاحات کے ذریعہ ترقی کے دروازے کھول دیئے تھے، 21 مئی 1991ء کو اس دنیا سے چل بسے۔ 1991ء کے عام انتخابات کے دوران انتخابی مہم کے بیچ انہیں قتل کردیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ راجیو گاندھی نے اپنی انتخابی زندگی کا آغاز 12 مئی 1981ء کو امیٹھی لوک سبھا حلقہ سے اپنے پرچہ نامزدگی داخل کرتے ہوئے کیا تھا۔ اترپردیش کے امیٹھی لوک سبھا حلقہ سے ان کے چھوٹے بھائی سنجے گاندھی نمائندگی کرتے تھے، لیکن 23 جون 1980ء کو ایک فضائی حادثہ میں ان کی موت ہوگئی، جس کے بعد ضمنی انتخابات ضروری ہوگئے۔ بہرحال 21 مئی 1991ء کو راجیو گاندھی شہید ہوئے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آخری جلسہ عام اُڑیسہ میں منعقد کیا تھا اور وہی ان کا آخری خطاب ثابت ہوا۔ 21 مئی 1991ء کو راجیو گاندھی نے آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم کا دورہ کیا اور کانگریس کے لوک سبھا امیدوار اوما گجپتی راجو کی تائید میں منعقدہ روڈ شو میں بھی حصہ لیا۔ اس طرح وہ ان کی آخری مہم ثابت ہوئی۔ روڈ شو میں حصہ لینے کے بعد شام دیر گئے راجیو گاندھی چینائی کیلئے روانہ ہوگئے اور راستے میں سری پرمبدور کے مقام پر انسانی بم کے طاقتور دھماکے میں ان کی المناک موت ہوگئی۔ دراصل ٹاملناڈو کے سری پرمبدور میں وہ کانگریس کی انتخابی ریالی میں حصہ لینے کیلئے پہنچے تھے جہاں خودکش دھماکہ کرتے ہوئے ان کی زندگی کا چراغ گُل کردیا گیا۔

بی جے پی۔ بائیں بازو اتحاد نے مرکز میں وی پی سنگھ کی زیرقیادت نیشنل فرنٹ حکومت کی تائید کی تھی اور مرکزی حکومت نے راجیو گاندھی کو حاصل اسپیشل پروٹیکشن گروپ (ایس پی جی) سکیورٹی سے دستبرداری اختیار کی تھی اور یہ سب کچھ خصوصی تیکنیکی بنیاد پر کیا گیا اور اس کے لئے یہ دلیل پیش کی گئی کہ سابق وزیراعظم ایس پی جی کور کیلئے اہلیت نہیں رکھتے۔ یہ سکیورٹی صرف وزیراعظم کو فراہم کی جاتی ہے۔ جہاں تک راجیو گاندھی کا ایس پی جی کور واپس لینے کا سوال ہے، یہ سکیورٹی بناء کسی زمینی حقائق پر غور کئے واپس لی گئی، حالانکہ راجیو گاندھی جیسے اہم سیاسی قائد کی زندگی کو خطرات لاحق تھے اور خاص طور پر ایل ٹی ٹی ای سے انہیں خطرہ درپیش تھا، کیونکہ 29 جولائی 1987ء کو راجیو گاندھی کی ایماء پر ہی ہند۔ سری لنکا امن معاہدہ پر دستخط کئے گئے اور اسی معاہدے کے تحت ہندوستانی امن فورس کو سری لنکا بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ راجیو گاندھی نے وہ معاہدہ کرتے ہوئے اندرا گاندھی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کی، کیونکہ اندرا گاندھی کی یہ عادت رہی کہ وہ اپنے پالیسی فیصلوں پر عمل آوری کیلئے کسی بھی حد تک جاتی تھیں۔ اسی طرح راجیو گاندھی نے بھی جرأت مندانہ پالیسی فیصلے کئے، لیکن ان کے بعض فیصلے مقبولیت حاصل نہ کرسکے۔ سری لنکا کے ساتھ امن معاہدہ اگرچہ انہوں نے قومی مفاد میں کیا تھا، لیکن اس معاہدے سے خود ان کی زندگی کیلئے جوکھم بڑھ گیا تھا۔ راجیو گاندھی کی اگرچہ سیاسی زندگی مختصر رہی، لیکن اس عرصہ کے دوران انہوں نے جو کارنامے انجام دیئے، وہ یقینا قابل تعریف ہیں۔ 2021ء ملک میں معاشی اصلاحات کے نفاذ کی 30 ویں سالگرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1991ء میں جو معاشی اصلاحات نافذ کئے گئے، وہ دراصل راجیو گاندھی کی ذہنی اختراع تھی۔ اس حقیقت سے بھی بہت کم لوگ واقف ہیں کہ راجیو گاندھی ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ عوامی شعبہ دراصل ایک سفید ہاتھی ہوتا ہے۔ اس لئے انہوں نے معاشی اصلاحات پر کام کرنا شروع کیا۔ وہ بدقسمتی سے اپنے میعادوزارتِ عظمیٰ کے دوران معاشی اصلاحات کو آگے نہیں بڑھا سکے۔

راجیو گاندھی ہمیشہ اپنے وقت سے آگے رہا کرتے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کو 21 ویں صدی میں پروقار انداز میں داخل کروانے کی کوشش کی۔ آج 18 سے زائد عمر کے جو نوجوان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کررہے ہیں ، وہ بھی راجیو گاندھی کی دین ہیں۔ ہندوستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب بھی راجیو گاندھی نے برپا کیا تھا اور ملک میں ہر شعبے کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ بھی راجیو گاندھی کے سر بندھتا ہے۔ اس طرح راجیو گاندھی نے ڈیجیٹل انڈیا کی بنیاد ڈالی، مواصلاتی انقلاب برپا کیا، پنچایت راج اداروں کو مستحکم کیا، انہیں دستوری موقف عطا کیا۔ اس طرح راجیو گاندھی نے بے شمار کارنامے انجام دیئے۔ اس قسم کے کارناموں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ درحقیقت راجیو گاندھی نے معاشی اصلاحات کو قلمبند کیا اور 1991ء کے عام انتخابات کیلئے کانگریس کا جو انتخابی منشور تھا، اس کے مسودہ کی تیاری کا کام پی وی نرسمہا راؤ کے تفویض کیا گیا۔ اس میں انتخابی اصلاحات کی بلو پرنٹ بھی شامل تھی۔ انتخابی مہم کے بیچوں بیچ راجیو گاندھی کو قتل کیا گیا ، جس کے فوری بعد نرسمہا راؤ صدر کانگریس مقرر ہوئے اور پھر عہدۂ وزارت عظمیٰ پر انہیں فائز کردیا گیا۔ اس طرح پی وی نرسمہا راؤ نے راجیو گاندھی کے معاشی اصلاحات پر عمل آوری کی۔ جس وقت 1991ء میں معاشی اصلاحات کو روشنا س کروایا گیا ، حسن اتفاق سے اسی وقت عالمی معاشی انحطاط کا آغاز ہوا۔ اس کے باوجود معاشی اصلاحات پر پوری تندہی کے ساتھ عمل آوری کی گئی۔ معاشی اصلاحات کے ذریعہ حکومت نے عوامی شعبہ کی اکائیوں، میچول فنڈس اور سرکاری ایکویٹی کے ساتھ ساتھ عوامی شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور 1991ء کے بجٹ خطاب میں ان شعبوں میں 20% سرکاری ایکویٹی کی پیشکش کی۔ ان کا مقصد دراصل دستیاب وسائل میں اضافہ کرنا تھا اور معاشی عمل میں عوام کی شراکت داری بڑھانا اور عظیم تر خوداحتسابی کو فروغ دینا تھا۔ راجیو گاندھی کی حکومت نے صنعتی پالیسی، سرکاری اداروں کی ترقی پر بھی توجہ دی۔ اس کے علاوہ پبلک انٹرپرائزر کی کارکردگی کو بہتر بنایا۔ بہرحال کانکنی، کوئلہ کی صنعت، اسلحہ و گولہ بارود اور دفاعی آلات، اٹامک انرجی، تابکار معدنیات و ریلوے ٹرانسپورٹ پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان شعبوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، لیکن کانگریس کے نافذ کردہ معاشی اصلاحات میں 1999ء کے دوران واجپائی حکومت نے تبدیلیاں لائیں اور مختلف کمیٹیوں کی سفارشات کو روبہ عمل لانے کے بہانے اس نے معاشی اصلاحات سے جڑی پالیسیوں میں تبدیلیاں کیں۔ حالانکہ سی رنگاراجن کمیٹی نے 1993ء میں جو سفارشات پیش کی تھیں، اسے بھی واجپائی حکومت میں نظرانداز کردیا گیا۔ راجیو گاندھی نے پی وی نرسمہا راؤ کو نئی تعلیمی پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی اور نئی پالیسی میں کمزور طبقات کے بچوں کیلئے اقامتی اسکولوں کا تصور پیش کیا گیا اور آج ہندوستان میں کمزور طبقات کے بچوں کیلئے اقامتی تعلیمی ادارے کامیابی کے ساتھ چلائے جارہے ہیں۔ مقامی اداروں کے انتخابات میں بھی خواتین کیلئے تحفظات راجیو گاندھی کا ایک انقلابی قدم تھا جس کے نتیجہ میں جمہوریت کے جڑوں سے جڑے لاکھوں خاتون لیڈر کو منظر عام پر لانے میں مدد ملی۔ دستور کے 63 ویں اور 64 ویں ترمیمی بلس منظور کئے گئے تاکہ پنچایتوں اور شہری مقامی اداروں کو قانونی موقف دیا جاکر خواتین کو تحفظات فراہم کئے جائیں، لیکن ان دستوری ترمیمی بلز کو بی جے پی لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے ناکام بنایا۔ اس کے فوری بعد راجیو گاندھی نے لوک سبھا کی تحلیل اور نئے انتخابات منعقد کروانے کی سفارش کی۔ 1992ء میں پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے دستور کی 73 ویں اور 74 ویں ترمیمی بلز مدون کئے۔ بعد میں اس مرحلہ کو سونیا گاندھی نے صدر کانگریس کی حیثیت سے آگے بڑھایا۔ اب مرکزی سطح پر خواتین کو تحفظات دینے سے متعلق بل منظوری کئے جانے کا انتظار ہے۔ راجیہ سبھا میں یہ بل منظور ہوچکا ہے۔ لوک سبھا میں اس کی منظوری کا انتظار کیا جارہا ہے۔