معاشی موقف اور حکومت کےدعوئوں کی حقیقت

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

اچھی معیشت کسی تعریف و ستائش کی محتاج نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی بہتری کا احساس دلاکر رہتی ہے اور جو اچھے ماہرین اقتصادیات ہوتے ہیں اپنی معاشی پالیسیوں کے بہترین نتائج کے پیچھے ان کی صلاحیتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ صدر جمہوریہ نئے سال کے پہلے اجلاس کے موقع پر دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں جبکہ بجٹ (عبوری بجٹ) پر مرکزی وزیر فینانس کا خطاب دراصل حکومت کی پالیسی سے متعلق اہم بیان ہوتا ہے۔ بہرحال صدر کا خطاب ہو یا بجٹ پیش کرنے کے دوران وزیر فینانس کی تقریر دونوں حکومت کے منصوبوں و ارادوں کو بالکل واضح کردیتے ہیں۔ جیساکہ فی الوقت پارلیمنٹ میں عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر فینانس نے کیا۔ جہاں تک این ڈی اے حکومت کا سوال ہے یقینا وہ ملک کو اپنی معاشی پالیسی کا ایک واضح بیان دینے کی خواہاں رہی ہوگی جاریہ سال وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں عبوری بجٹ 2024-25 پیش کیا۔ وزیر فینانس نے عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے ایسا انداز یا طریقہ اختیار کیا جس کے ذریعہ یہ تاثر دیا گیا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ایک طرح سے انہوں نے مشکل صورتحال کو بالکل راست طور پر یا پُراعتماد انداز میں پیش کیا اور میڈیا نے بھی ’حکم میرے آقا‘ کہتے ہوئے حکومت کے پیام کو آگے بڑھایا لیکن ہماری وزیر فینانس کے لیے یہ بات انتہائی مایوس کن رہی کہ بجٹ پیش کرنے کے دوسرے دن کے اختتام تک بجٹ سے متعلق خبریں پوری طرح غائب ہوگئیں۔
عوام تھک گئے، اکتا گئے: میں سمجھتا ہوں کہ لوگ تھک گئے ہیں، اکتا گئے ہیں اور اس کی وجہ حکومت کے وہ بلند بانگ دعوے ہیں جو اس نے دس سال کے دوران بار بار کئے ہیں۔ عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت اقتدار میں آنے کے بعد این ڈی اے حکومت (وزیر اعظم نریندر مودی) نے نوجوانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ہر سال وہ کروڑ ملازمتیں فراہم کریں گے جبکہ مودی حکومت کا یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ اگر ہماس وعدہ پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مرکزی محکمہ جات میں موجود مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتی کے لیے دس برسوں میں چند ہزار تقرر نامے بیروزگار نوجوانوں کے حوالے کئے گئے جبکہ ٹکنالوجی کی کمپنیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کمپنیوں نے سال 2023ء میں تقریباً 260000 ملازمین کو ملازمتوں سے ہٹادیا۔ ہاں! عوام کو مودی حکومت کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ مودی نے 2014ء میں اقتدار میں آنے سے قبل انتخابی مہم کے دوران پرزور انداز میں عوام سے کہا تھا کہ نہ صرف ہندوستان میں بلیک منی کا پتہ چلائیں گے بلکہ بیرونی ملکوں کی بینکوں میں جمع بلیک منی کو قومی خزانے میں واپس لائیں گے اور ہر ہندوستانی کے بینک اکائونٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروائے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ مبینہ طور پر مالیاتی اسکامس میں ملوث عناصر کو (بالفاظ دیگر قومی دولت کے لٹیروں کو) ملک سے باہر چلے جانے (فرار ہونے) کی اجازت دی گئی۔ انہیں نہ صرف بیرونی ملکوں میں قیام کا موقع فراہم کیا گیا بلکہ پچھلے دس برسوں میں حکومت انہیں بیرونی ملکوں سے واپس ہندوستان لانے میں بھی بری طرح ناکام رہی۔ عوام کو یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مودی حکومت نے پرزورانداز میں یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ کسانوں کی آمدنی کریں گے، سال 2022ء تک ہر خاندان ذاتی مکان کا مالک ہوگا اور 2023-24 میں ملک کی معیشت 5 کھرب امریکی ڈالرس تک کردی جائے گی لیکن مذکورہ تینوں وعدے بھی صرف وعدے ثابت ہوئے جو آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ اس لیے اب جبکہ وزیر فینانس عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے بے شمار بلند بانگ دعوے اور وعدے کئے۔ لوگ ان کے دعوئوں کو صرف دل لگی سمجھنے لگے۔
چند مثالیں: وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں تقریباً 58 منٹ کی اپنی بجٹ تقریر میں کہا ، یہ اور بنیادی ضروریات کی گنجائش نے دیہی علاقوں میں حقیقی آمدنی میں اضافہ کیا ہے۔
اس دعوے کی حقیقت: پی ایل ایف ایس ڈیٹا اور اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا رپورٹ (عظیم پریم جی یونیورسٹی) کے مطابق تین قسم کے ورکروں (باقاعدہ، جزوقتی/ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور خود کے کاروبار کرنے والے) کی حقیقی اجرتیں/ تنخواہیں سال 2017-18 اور 2022-23 ء کے درمیان جمود کا شکار رہی۔
وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں یہ بھی دعوی کیا کہ حکومت نے 25 کروڑ لوگوں کو غربت کے دلدل سے باہر نکلنے اور غربت سے آزادی حاصل کرنے میں بھرپور مدد کی۔
اس دعوے کی حقیقت : UNDP کے مطابق یو پی اے کے دور حکومت میں 27.5 کروڑ ہندوستانیوں کو غربت سے نکالا گیا جبکہ بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت میں دس برس کے دوران 14.0 کروڑ ہندوستانیوں کو غربت سے نکالا گیا ہے۔
وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے پرزور انداز میں دعوی کیا کہ پی ایم کسان سمان یوجنا کے تحت راست مالی اعانت 11.8 کروڑ کسانوں بشمول حاشیہ پر پہنچنے اور چھوٹے کسانوں کو فراہم کی گئی۔
اس دعوی کی حقیقت : استفادہ کنندگان کسانوں کی تعداد 15 نومبر 2023 تک گرکر 8.12 کروڑ ہوگئی جبکہ زمیندار (جن کی اپنی ذاتی اراضی ہے) کو انعام دیا گیاہے جبکہ قولدار کسانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران دعوی کیا کہ ملک کے مختلف مقامات پر اعلی تعلیم کے نئے ادارے یعنی 7 آئی آئی ٹیز، 16 آئی آئی آئی ٹیز، 15 ایمس اور 390 یونیورسٹیز قائم کی گئیں۔
اس دعوے کی حقیقت : 22 مارچ 2023 ء میں مخلوعہ جائیدادوں کی تعداد کچھ اس طرح تھی آئی آئی ٹیز (9625)، آئی آئی آئی ٹیز (1212) اور سنٹرل یونیورسٹیز (22106) رہی جبکہ ریسیڈنس پوسٹس (عہدوں) کے لیے ایمس دہلی، میں 1256 اور دیگر 19 ایمس میں مخلوعہ جائیدادوں کی تعداد 3871 تھی۔ وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران اس بات کا دعوی کیا کہ پی ایم مدرا یوجنا نے صنعت کار بننے کے خواہاں ہمارے نوجوانوں کو 22.5 لاکھ کروڑ روپئے مالیتی 43 کروڑ قرض منظور کئے۔
اس دعوی کی حقیقت : قرض کا اوسط حجم 52.235 کروڑ روپئے ہے اگر ہم ان قرضوں کو سیشو (83%)، کشور (15%) اور ترون (2%) میں کلاسیفائی کریں تو یقینا سب سے زیادہ قرض سیشو کو ملا ہے۔ چنانچہ شائع شدہ ڈیٹا میں انکشاف کیا گیا کہ 35.69 کروڑ، سیشو قرض دہندگان نے 9 لاکھ کروڑ روپئے کا قرض حاصل کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوسط قرض کا حجم 25,217 روپئے ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ 25 ہزار روپئے میں کس قسم کا کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے اور چلایا جاسکتا ہے۔
وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں یہ دعوی کیا کہ گڈس اینڈ سروسس ٹیکس (جی ایس ٹی) نے ایک ملک ایک بازار اور ایک ٹیکس کے اآئیڈیا کو مستحکم بنایا ہے۔
اس دعوی کی حقیقت : اگر کسی ایک ٹیکس کی تمام تاجرین اور کاروباری حضرات نے متحد ہوکر مخالفت کی ہے تو وہ GST ہے جی ایس ٹی میں خامیاں ہی خامیاں ہیں اور یہ ہراسانی اور استحصال کا ایک آلہ بن گیا ہے۔