معافی سے اختلاف اور انتشار کا خاتمہ ممکن

   

ابوزہیر سید زبیر ھاشمی نظامی
اگر بندہ اﷲسبحانہٗ و تعالیٰ کے کسی حکم کو توڑنے لگا تو وہ کئی دفعہ سوچے، غور کرے کہ وہ کس کا حکم تو ڑ رہا ہے۔ اس لئے کہ جب بندہ اﷲسبحانہٗ وتعالیٰ کے حکم اور اسکے حدود کو توڑتا ہے تو پروردگار کو اُس پر اِس طرح جلال آتا ہے، جیسے شیر کو اپنا شکار دیکھ کر جلال آتا ہے۔ اگر بندہ اﷲتعالیٰ کو جلال میں دیکھے تو پھر بندے کا کیا حال ہوگا؟ اسی لئے اﷲسبحانہٗ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ: ’’ تِلْکَ حُدُوْدُﷲِ فَلاَ تَقْرَبُوْھَا‘‘۔ (سورۂ بقرہ آیۃ ۲۲۹)
ترجمہ: ’’اﷲسبحانہٗ و تعالیٰ کے حدود کے قریب تک نہ جاؤ‘‘۔
لہذا ہر بندۂ خدا کو چاہئے کہ وہ اﷲسبحانہٗ و تعالیٰ کے حکم کی عظمت اپنے دل میں پیدا کرے اور اُس کو یہ احساس رہے کہ کبھی بھی اﷲ کے کسی حکم کو ہرگز ہرگز نہیں توڑیں۔ یہ بہت ہی اہم قدم ہے۔
شیطانی عمل: آج کا انسان اپنی پسند کی نعمتیں کھا یا ہے اور کھا رہا ہے، اس لئے اسکا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ اس کے دل میں اﷲتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر و قیمت نہیں ہے۔ پس اسی وجہ سے اس کی طبیعت میں ہٹ دھرمی، عناد اور ضد ہے۔ اب ہٹ دھرمی کیا ہوتی ہے؟ ہٹ دھرمی یہ ہے کہ بات بھی غلط کرنا اور اس پر ڈٹ کر رہنا۔ شرمندہ ہونے کے بجائے، مختلف تاویلیں نکالنااور اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہنا۔یاد رکھیں کہ ہٹ دھرمی، ایک شیطانی عمل ہے۔ کیونکہ دنیا میں سب سے پہلے ہٹ دھرمی شیطان نے کی تھی۔
معافی مانگنے میں ہی عظمت ہے: ایک جملہ بڑا خوبصورت اور پیارا سا ہے اور وہ یہ ہے ’’غلطی ہوگئی، معاف کردیجئے‘‘ اگر یہ جملہ ہم سیکھ لیں اور اپنے ماتحت کو سکھادیں تو یقین جانئے کہ ہمارے معاشرے کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں گے۔ l ماں باپ اولاد سے ناراض ہوں تو اولاد کہدے کہ ابّا حضور؍امی جان’’غلطی ہوگئی،معاف کردیجئے‘‘ تونہ صرف ماں باپ کی ناراضگی ختم ہوگی بلکہ وہ اور بھی خوش ہوجائیں گے۔l میاں بیوی کے جھگڑے میں کوئی ایک یہ کہدے کہ’’غلطی ہوگئی، معاف کردیجئے‘‘ تو جھگڑاہی ختم۔ l بھائی، بھائی میں اختلاف ہوجائے تو کوئی ایک کہدے کہ’’غلطی ہوگئی، معاف کردیجئے‘‘ تو بھائیوں میںاختلاف ختم ہوجائے گا اور محبت قائم ہوجائیگی۔l دوست، دوست میں جھگڑا ہوجائے تو کوئی ایک کہدے کہ ’’غلطی ہوگئی، معاف کردیجئے‘‘ تو دوستی بحال ہوکر ناراضگی ختم ہوجائے گی۔ مگر اس طرح کا یہ جملہ نہ ہم سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رکھیں !آج اس دنیوی زندگی میں ایکدوسرے سے معافی مانگ لینا آسان ہے، مگر بروز قیامت اسطرح کے فیصلوں کو نمٹانا اور اسوقت کے سوالات کے جوابات دینا بہت مشکل ہے۔ قیامت کے دن بندے کو کھڑا کیا جائیگا کہ بتاؤ ! تم نے فلاں کو کمینہ کیوں کہا ؟ تم نے فلاں کو رذیل کیوں کہا ؟ تم نے فلاں کو بے ایمان کیوں کہا ؟
اگر بندہ قیامت کے دن ثابت نہ کرپایا اور جواب نہ دے سکا تو اُس وقت بندے کی کیا حالت ہوگی؟ (اﷲ ہی بہتر جانتا ہے) اسی لئے آج ہی بلکہ ابھی ہم ایکدوسرے سے معافی طلب کرلیں، پتہ نہیں ہماری موت کب واقع ہوجائے۔ معافی مانگنا حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی صفت ہے اور اس میں عظمت ہے ۔ جب حضرت سیدنا آدم علیہ السلام گندم کے درخت کا خوشہ استعمال کیا، تو آپ نے یہ فرمایا: ’’اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا، اور اگر آپ ہماری بخشش نہ فرمائیںاور ہم پر رحم نہ فرمائیں تو ہم ضرور بہ ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘ ( سورۂ اعراف آیت ۲۳)۔
مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ معافی طلب کرنا حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی صفت ہے۔ لہذا مومن بندہ پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی غلطی کو جلد تسلیم کرکے معافی مانگ لے۔
اب یہ ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ غلطی تسلیم کرنے کے بجائے کئی جگہوں پر اکثر جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹ کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ بجائے ہم جھوٹ کہنے کے اگر سچ بولدیں اور غلطی ہوگئی کہہ کر معافی مانگ لیں تو اس سے اختلاف بھی ختم ہوجائے گا اور انتشار بھی۔
اس کے برعکس یہ دیکھیں کہ شیطان نے بھی غلطی کی تھی۔ جب اُسے حکم ِ خدا ہوا تو اُس نے ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا۔ اﷲرب العزت نے ابلیس سے پوچھا اے ابلیس ! تو نے سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ بجائے وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے، کہنے لگا ’’خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ‘‘ (سورۂ ص آیۃ ۷۶) ترجمہ: مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور انہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ جب ابلیس نے اپنی غلطی کے باوجود ہٹ دھرمی کا اظہار کیا تو اﷲرب العزت نے فرمایا ’’ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ‘‘ (سورۂ ص آیۃ ۷۷)۔ ترجمہ پس تو نکل جا میرے دربار سے، تُو مردود ہے، بلکہ اسکے متعلق یہ بھی فرمادیاگیا کہ’’ اِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ ‘‘ (سورۂ ص آیۃ ۷۸)۔ ترجمہ : بے شک تیرے اوپر قیامت تک میری لعنت برسے گی۔
اب اس کے بعد جو بندہ بھی غلطی کرتے ہوئے ، ہٹ دھرمی کرے گا تو پھر اﷲتعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ فرمائیں گے، جو شیطان کے ساتھ کیا تھا۔ ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو جب بھی یاد کیا جاتا ہے تو بڑے ہی ادب و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جبکہ شیطان مردود سے ہمکو پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حقوق العباد معاف کروانے کی اشد ـضرورت: اگر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرلیں اور معافی مانگ لیں تو بندے کے بڑے سے بڑا مسئلہ لمحوں میں حل ہوجائیگا۔ حقوق اﷲ میں کوئی حق ضائع ہوجائے تو امید ہے کہ اﷲتعالیٰ اپنے فضل و کرم سے معاف فرمادے۔ مگر حقوق العباد میں کوئی حق ضائع ہوجائے تو جس کا حق ضائع کیا گیا، اسی سے معافی مانگنی پڑیگی۔ غور تو کریئے کہ ہم(۱) کتنوں کو اپنے ہاتھوں سے تکلیف پہنچائے ؟ (۲) کتنے رشتوں کو تلوار جیسی زبان سے کاٹے ؟ (۳) کتنوں پر بہتان لگائے ؟ (۴) کتنوںسے بدزبانی کئے ؟ (۵) کتنوں کا دل دُکھائے ؟ (۶) کتنوں سے حسد کئے ؟ (۷) کتنوں کی غیبت کئے ؟ (۸)کتنوں سے بدگمانی کئے ؟ (۹)کیا کبھی ہم کسی سے کبھی معافی بھی مانگے ؟ہم بظاہر اپنی صورت اور لباس سے بڑے اچھے نظر آتے ہیں، مگر یاد رکھیں کہ ہم جو بھی عبادتیں، ریاضتیں کرتے ہیں یہ سب اُسی وقت کام آئیں گے، جب کہ ہم حقوق العباد صحیح طور پر ادا کرتے رہیں۔ لہذا آج ہی سے ہم ایک دوسرے سے معافی مانگنے کی بہترین عادت ڈال لیں۔ کیونکہ دنیا میں معافی مانگنا بہت ہی آسان ہے، مگر قیامت کے دن اس کا جواب دینا بے انتہا مشکل عمل ہے۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com