معجزات النبیﷺ

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
مَیں نہ عارِف، نہ مُجدِّد، نہ محدث،نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوّت کا مقام
ہاں، مگر عالمِ اسلام پہ رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پہ ضمیرِ فَلکِ نیلی فام
اسلامی دانشوروں اور علمائے دین نے نبیوں کے معجزات کی اس طرح تعریف کی ہے ۔ انبیاء علیھم السلام کا کوئی غیرمعمولی واقعہ جو فطرت انسانی ، عقل و فہم سے بالاتر ہو اور جو اﷲ کی مرضی اور اجازت سے نبی کے ذریعہ سرزد ہوا ہو۔
قرآن مجید مختلف پیغمبروں کے حوالے سے معجزات بیان کرتا ہے ۔ طوفان نوح علیہ السلام ، کشتی نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کے لئے آگ گلزار بن گئی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام جن کا عصاء سانپ بن گیا اور جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دریا میں عصاء مارکر راستہ بنانا اور اُن کے ماننے والوں کا دریا پار کرانا اور فرعون کے حامیوں کا دریا میں غرق ہوجانا ۔ حضرت صالح علیہ السلام کے لئے پہاڑوں سے اونٹنی کا نکلنا ، حضرت یعقوب علیہ السلام کا الہام کے ذریعہ اُن کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سے ملنا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بیماروں کو صحتیاب کرنا اور مُردوں کو زندہ کرنا وغیرہ وغیرہ ۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو سخت ترین آزمائشوں سے گُذرنے کے بعد اُن کی قوموں اور وقت کی مناسبت سے خدائی اعزازات عطا کئے ۔ قرآن مجید معجزات کے بارے میں مزید اضافہ یہ کرتا ہے کہ یہ معجزات پیغمبروں کے افعال نہیں ہوتے بلکہ یہ اﷲ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں تاکہ پیغمبروں کو اعزاز بخشا جائے ، اُن کے مشکل کام میں اُنھیں مضبوط و مستحکم کیا جائے جو منکرین قرآن ، اسلام اور پیغمبروں کے خلاف ہوں ۔
جب تمام پیغمبروں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعزازات حاصل تھے تو پھر سردار انبیاء ، ختم المرسلینؐ انفرادیت اور خصوصیت کے حامل کیوں نہ ہوتے ۔ ہمارے پیارے نبیؐ کے بے شمار معجزات میں سب سے بڑا معجزہ آپؐ پر نزول قرآن ہے ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : ’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم اُس کو دیکھتے وہ خوف سے دبا اور پھٹا جاتا اور یہ باتیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ فکر کریں ‘‘ ( سورۃ الحشر )
امام ابن تیمیہ کے بقول رسول اﷲ ﷺ کی حیات طیبہ ، آپؐ کے اقوال ، آپؐ کے افعال ، آپؐ کی شریعت نبوت کی نشانیاں اور معجزہ ہیں۔ امام ابن کثیر نے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’البدایہ و النہایہ ‘‘ میں ایک مکمل باب ’’نبوت کی نشانیاں‘‘ میں تفصیل سے معجزات النبی ﷺ کا تذکرہ کیا ہے ۔ معجزات النبیﷺ کی ابتداء سب سے پہلے امام ابن قتیبہ ؒ نے کی جن کا انتقال ۲۷۶ہجری میں ہوا ۔ اُن کے بعد ابوداؤد اور سجز تائی نے کیا جن کا انتقال ۲۷۵ ہجری میں ہوا۔ پھر امام ابن الحجار نے اپنی کتاب تہذیب والتہذیب میں معجزات النبیؐ کا تفصیل سے ذکر کیا پھر امام ابن کثیر جو انتہائی جید محدث تھے جو ہر حدیث کو اُس کی سلسلہ آخر تک روایت کرتے تھے اس موضوع کو اُس کی معراج تک پہنچایا ۔ امام ابن کثیر کی تفسیر قران زیادہ تر علمائے دین کیلئے ایک حوالہ کتاب “Referencebook” کی حیثیت رکھتی ہے ۔
معجزۃ القرآن : قرآن بذاتِ خود ایک معجزہ ہے کہ آج بھی کسی کتاب میں ایسا حسابی نظام ڈالنا انسانی بساط سے باہر ہے ۔ طاقتور کمپیوٹرز کی مدد سے اس جیسے حسابی نظام کے ہر طرح کی غلطیوں سے پاک کتاب کی تشکیل ناممکن ہے ۔ چودہ سو سال پہلے تو اس کا تصور محال ہے آج جبکہ عقل و خرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے ، یہی قرآن اپنا چیلنج پھر دہراتا ہے … خاندان ، سائنسدان ، ہر خاص و عام مومن و کافر سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ قرآن کا ہر لفظ اپنی جگہ خود علم و عرفان کا ایک وسیع جہاں ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے کفار مکہ کو اور جنات کو جنھوں نے انکار کیا قرآن کے کئی مقامات پر جیسے سورۃ الاسراء ۸۸، سورۃ الطور ۳۳۔۳۴، سورۃ البقرہ ۲۳، سورۃ یونس ۳۷۔۳۹، اور سورۃ الفرقان ۶ میں چیلنج کیا کہ قرآن جیسی ایک سورہ بناؤ جو تم ہرگز نہ کرپاؤ گے ۔ منکرین قرآن اور سول اﷲ کے لئے اﷲ کی وعید ہے کہ اُن کا ٹھکانہ دوزخ ہے ۔
’’وہ نبوّت ہے مسلماں کے لیے برگِ حِشیش
جس نبوّت میں نہیں قُوّت و شوکت کا پیام‘‘
(۱؎ ، ۲؎ علامہ اقبالؔؒ )
… باقی آئندہ